میانمار: ایمرجنسی میں مزید چھ ماہ کی توسیع
1 اگست 2022میانمار کی سرکاری میڈیا نے یکم اگست پیر کے روز اطلاع دی کہ فوجی جنٹا نے ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید چھ ماہ کی توسیع کا فیصلہ کر لیا ہے۔ فوجی جنٹا نے گزشتہ برس فروری میں جب بغاوت کرتے ہوئے، آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، اس وقت پہلی بار ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا تھا۔
میانمار کے سرکاری میڈیا ادارے 'گلوبل نیو لائٹ' کی ایک رپورٹ کے مطابق جنٹا کے رہنما من آنگ ہلینگ نے فوجی حکومت سے درخواست کی کہ ''انہیں چھ ماہ کے لیے مزید خدمات انجام دینے کی اجازت دی جائے۔''
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنٹاکی قومی دفاع اور سلامتی کونسل کے ارکان نے متفقہ طور پر اس فیصلے کی تائید کی ہے۔
سن 2021 سے ہنگامی حالت
فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے ساتھ ہی ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا۔ فوجی جنٹا نے اس وقت کہا تھا کہ انتخابات ہوں گے اور اگست 2023 تک ایمرجنسی ختم کر دی جائے گی۔تاہم اب اس بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں کہ آیا یہ انتخابات کبھی ہوں گے بھی یا نہیں۔
فوج نے سن 2020 کے ان عام انتخابات کے دوران انتخابی دھاندلی کا الزام لگایا تھا، جس میں سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم آزاد الیکشن مانیٹرنگ گروپوں کو انتخابات میں دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ بغاوت کے بعد ہی جمہوری رہنما سوچی کو حراست میں لے لیا گیا تھا، جنہیں اب متعدد الزامات کا سامنا ہے۔
فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی اپوزیشن اور آزادی صحافت کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ جمہوریت کے حامی کارکنوں کے مطابق ہفتے کے روز ہی سکیورٹی فورسز نے ینگون میں فوجی حکمرانی کے خلاف ہونے والے احتجاج کی کوریج کرنے والے جاپان کے ایک صحافی کو حراست میں لے لیا۔
پیر کے روز ہی جاپان کی حکومت نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میانمار میں اس کے ایک شہری کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ٹوکیو نے اس کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی فوجی حکومت نے جمہوریت نواز چار کارکنوں کو پھانسی دے دی تھی۔ میانمار میں سن اسی کی دہائی کے بعد موت کی سزا پر یہ پہلا عمل درآمد تھا۔
اخبار 'گلوبل نیو لائٹ آف میانمار' کے مطابق پھانسی پانے والے افراد میں جمہوریت کے لیے جد و جہد کرنے والے معروف کارکن کیاو من یو اور ایک سابق قانون ساز اور ہپ ہاپ فنکار فاؤ زیا تھاؤ بھی شامل تھے۔ تھاؤ معزول رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' (این ایل ڈی) سے رکن پارلیمان رہ چکے تھے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)