میانمار فوجی حکومت نے فضائی حملے کی تصدیق کی، درجنوں ہلاکتیں
12 اپریل 2023میانمار کی فوجی جنتا کے ترجمان زاومن تون نے فضائی حملے کی تصدیق کی ہے تاہم انہوں نے جانی نقصان کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
بی بی سی برمی، دی اراوادی اور ریڈیو فری ایشیا کی رپورٹس کے مطابق اس حملے میں کم از کم 50 افراد کے ہلاک اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
زاومن تون نے کہا، "منگل کی صبح تقریباً آٹھ بجے پازیگی گاوں میں باغی گروپ پیپلز ڈیفنس فورس کے دفتر کی افتتاحی تقریب تھی اور ہمارے سکیورٹی فورسز نے اس پر حملہ کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں کچھ یونیفارم میں حکومت مخالف باغی جنگجو تھے تاہم ہلاک ہونے والوں میں کچھ سویلین بھی شامل ہوسکتے ہیں۔"
میانمارکے فوجی آمر کا اپوزیشن کو ’کرش‘ کر دینے کا اعلان
فوجی حکومت کے ترجمان نے "چند اموات" کے لیے پیپلز ڈیفنس فورسز (پی ڈی ایف) کی بچھائی گئی سرنگو ں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
اقوام متحدہ اور امریکہ نے حملے کی مذمت کی
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے سیگینگ میں میانمار کے مسلح افواج کی جانب سے حملے کی شدید مذمت کی۔ ان کے ترجمان ا سٹیفن دوجارک نے کہا، "گوٹیریش نے فوج سے ملک بھر میں شہری آبادی کے خلاف تشدد ختم کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔"
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ وہ اس مہلک فضائی حملے کے بارے میں سن کر 'خوف زدہ‘ ہیں کیونکہ متاثرین میں اسکول کے بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "عالمی ادارہ قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔"
واشنگٹن نے بھی کہا کہ اسے فضائی حملوں پر 'گہری تشویش 'ہے۔
میانمار پر امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے مزید پابندیاں عائد
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا "یہ پرتشدد حملے حکومت کی انسانی جانوں کو نظر انداز کرنے اور فروری 2021 کی بغاوت کے بعد برما میں ہونے والے سنگین سیاسی اور انسانی بحران کے لیے فوج کی ذمہ داری کو مزید واضح کرتے ہیں۔"
ہوا کیا تھا؟
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ایک جنگی طیارے نے ایک ہجوم پر براہ راست بم گرایا جو صبح آٹھ بجے پازیگی گاؤں کے باہر اپوزیشن تحریک کے مقامی دفتر کے افتتاح کے لیے جمع تھے۔
ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ طیارے کی بمباری کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا اور اس جگہ پر فائرنگ کی۔ ایک دیگر عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ 'میں بھیڑ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا جب میرے ایک دوست نے فون پر مجھ سے لڑاکا طیارے کے آنے کے بارے میں بتایا۔'
میانمار ميں فوجی بغاوت کی پہلی برسی، مزید امریکی پابندیاں
’جیٹ طیارے نے براہ راست ہجوم پر بم گرائے اور میں قریبی کھائی میں چھلانگ لگا کر چھپ گیا۔ چند لمحوں بعد جب میں نے کھڑا ہو کر اردگرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ہر طرف دھواں پھیلا ہوا ہے اور لوگوں کے اعضا ہر سُو بکھرے پڑے ہیں۔ آگ لگنے سے اپوزیشن کے دفتر کی عمارت تباہ ہو گئی۔ تقریباً 30 افراد زخمی بھی ہوئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 'جب زخمیوں کو منتقل کیا جا رہا تھا تو ایک ہیلی کاپٹر آیا اور مزید لوگوں پر فائرنگ کر دی۔ اب ہم لاشوں کو جلد از جلد جلا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ افتتاحی تقریب کے لیے تقریباً 150 لوگ جمع ہوئے تھے اور مرنے والوں میں خواتین اور 20 سے 30 بچے شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرنے والوں میں مقامی طور پر بنائے گئے حکومت مخالف مسلح گروپوں اور دیگر اپوزیشن تنظیموں کے رہنما شامل ہیں۔
میانمار میں مسلسل فوجی کارروائیاں
سن 2021 میں فوج کے ذریعہ نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ پلٹ دینے کے بعد سے میانمار میں بدامنی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
فوج مخالف بعض گروپوں نے ہتھیار اٹھالیے ہیں اورنسلی اقلیتوں کو شامل کرکے کارروائیاں کرتے رہتے ہیں جس کے جواب میں فوج ان پر فضائی حملے کرتی ہے۔ فوج اکثر شہری علاقوں کو بھی نشانہ بناتی ہے۔
میانمار:باغیوں کے حملوں میں سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک
فوج نے مارچ میں شان ریاست میں ایک بودھ عبادت گاہ میں پناہ لینے والوں پر فضائی حملہ کرکے 30 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔
گزشتہ برس کاچن صوبے میں کاچن انڈیپینڈنس آرمی کی جانب سے منعقد ایک تقریب پر فوج نے فضائی حملہ کردیا تھا جس میں تقریباً 50افراد ہلاک اور 70سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
گزشتہ ماہ ایک فوجی پریڈ کے دوران جنتا کے رہنما من آنگ ہلینگ نے مخالفین کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا عہد کیا تھا۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)