نائن الیون:چَودہ سال بعد بھی یادیں تازہ
11 ستمبر 2015گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کی خوفناک یادیں گیری سمیلی کے ذہن پر نقش ہو چُکی ہیں۔ وہ واقعات ایک آسیب کی صورت میں اُس کا اب بھی پیچھا کرتی ہیں اور وہ اپنے ذہن کو اس سے اب بھی آزاد نہیں کر سکا ہے۔ گیارہ ستمبر 2001 ء کو جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے پہلا طیارہ ٹکرایا تھا اور اُس میں سوراخ ہوا تھا تب پیرا میڈیکل عملے کے امدادی کارکن گیری سمیلی کو اوور ٹائم کرنا پڑا تھا۔
اپنے ساتھیوں، فائر بریگیڈ کے عملے، پولیس اہلکاروں اور متعدد رضا کاروں کے ساتھ مل کر گیری سمیلی نے ممکنہ تعداد میں انسانوں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ وہ نائن الیون کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے:’’جیسے ہی دوسرے ٹاور پر حملہ ہوا، میں نے ایک خاتون کو بچانے کی کوشش کی اور ہم دونوں ہی اس خطرناک لمحے سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے‘‘۔
دوسرے ٹاور کے گرنے کے بعد وہ اُس مقام سے محض 75 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہ خود کو ایک ٹرک کے نیچے چھپا کر بال بال موت کے مُنہ سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوا۔ کئی گھنٹوں بعد اُسے اُس کے امدادی کارکن ساتھیوں نے ٹرک کے نیچے سے نکالا تھا۔
آفت کے بعد مصائب
نیویارک میں پیدا اور پروان چڑھنے والے گیری سمیلی کا پیچھا گیارہ ستمبر کے واقعات کے بھیانک خاکے اب بھی کر رہے ہیں۔ حملوں کے کئی مہینوں بعد اُس نے دوبارہ اپنا کام شروع کیا اور دوسروں کے ساتھ اپنے اُن خوفناک تجربات شیئر کرتا رہا۔ وہ 19 سال کی عمر سے بطور امدادی کارکن کام کر رہا ہے۔ اُس کے لیے یہ پیشہ ایک خواب تھا۔
تاہم گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے اُس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بُری طرح سے متاثر ہوئی اور آخر کار 48 سال کی عمر میں اُس نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ تب سے اُس کا زیادہ تر وقت ڈاکٹروں کے چکر لگاتے گزر رہا ہے۔ وہ صحت کے گوناگوں مسائل کا شکار ہو چُکا ہے۔ وہ اور اُس جیسے ہزاروں امدادی کارکنوں کے مقدر میں اب طبی ماہرین اور معالجوں کے چکر لگانا ہی باقی رہ گیا ہے۔
بے یار و مدد گار
نائن الیون کے پُر تشدد واقعات کے متاثرین کی امداد کا کام انجام دینے والے کارکُن اب خود کو تنہا اور بے یار و مدد گار محسوس کر رہے ہیں۔ نہ صرف جسمانی اور جذباتی اعتبار سے بلکہ سماجی اور اقتصادی لحاظ سے بھی یہ کارکن اب خود کر بالکل تنہا اور بے بس محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ان کے علاج پر آنے والے خرچ کا بوجھ اب ان کی ہیلتھ انشورنس کمپنیاں بھی نہیں اُٹھانا چاہ رہی ہیں۔
یہی حال نائن الیون کے حملوں میں بچ جانے والے اُن افراد کا ہے جو کینسر یا سرطان جیسے مہلک عارضے میں مبتلا ہیں۔ ان کے علاج پر آنے والے اخراجات کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ ’حکومتی امداد کے بغیر امدادی کارکنوں کا تین چوتھائی حصہ قبل از وقت موت کے مُنہ میں چلا جائے گا‘، یہ کہنا ہے گیری سمیلی کا، جو خود اپنی زندگی سے بیزار ہو چُکا ہے۔