ناروے کی پولیس تنقید کی زد میں
28 جولائی 2011ناروے پولیس کے تازہ بیان کے مطابق دارالحکومت اوسلو میں بم دھماکے اور اوٹویا جزیرے میں پولیس کی وردی میں ملبوس ایک مسیحی انتہا پسند، 32 سالہ آندرس بیہرنگ بریوک کی فائرنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 85 ہو گئی ہے۔ ناروے میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 76 افراد کے ناموں کا ابتدائی اعلان ٹیلی وژن پر کیا گیا۔ آندرس بیہرنگ بریوک نے ان سب کو ہلاک کر دیا۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس کو ایک گھنٹہ لگ گیا جائے وقوع پر پہنچنے میں۔ اس قسم کے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا پولیس جلدی نہیں پہنچ سکتی تھی؟ کیا وہاں کوئی موٹر بوٹ موجود نہیں تھی، جو ان سنگین لمحات میں کام آ سکتی؟ ان سوالات کا جواب پولیس کی تعیناتی کے نگراں ’یاکوب یرٹتنائس‘ نے نفی میں دیا۔ اُن کے بقول’ناقص موٹر والی بوٹ بھی ایک طرح سے خوش قسمتی کا باعث بنی۔ اُس کی وجہ سے پولیس کی تعیناتی رکی نہیں رہی۔ ہمیں اس آپریشن کے لیے مکمل عملے کی ضرورت تھی۔ خراب موٹر والی بوٹ کی جگہ ہم نے دوسری بوٹ کا استعمال کیا اور اس طرح ہم نے تقریباً دس منٹ کی تاخیر بچا لی۔‘
یاکوب یرٹتنائس پولیس آپریشن پر کافی فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی ہمنوائی کرتے ہوئے ناروے پولیس کے ایلیٹ دستے ’ ڈیلٹا‘ کے ایک اعلیٰ اہلکار ’ہووارڈ گوسباک‘ کہتے ہیں’جب ہم اوٹویا جزیرے کے نزدیک پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ اس کے جنوبی حصے میں فائرنگ ہورہی ہے۔ پھر ہم فوراً ہی جزیرے کے جنوبی حصے کی طرف پہنچے‘۔
وہاں دہشت گرد آندرس بیہرنگ بریوک کھڑا تھا۔ اُس نے پولیس کو دیکھتے ہی تمام ہتھیار پھینک دیے اور بغیر کسی مزاحمت کے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا۔
ناروے کی حکومت اب ان تمام واقعات کی نہایت سکون اور تفصیل کے ساتھ چھات بین کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم Stoltenberg نے کہا ہے کہ پولیس پر لگے تمام الزامات کی چھان بین ایک آزاد کمیشن کرے گا اور تمام تر حقائق کا جائزہ لیا جائے گا۔ تاہم ناروے کے حکومتی سربراہ نے عوام سے صبر و تحمل کے مظاہرے کی اپیل کی ہے۔ Stoltenberg کا کہنا کہ اس وقت اہم ترین امر یہ ہے کہ ان افسوسناک واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں اور اُن کے لواحقین کے ساتھ دلی ہمدردی اورمکمل یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: افسر اعوان