نریندر مودی کے متبادل سیاستدان شیو راج سنگھ چوہان
19 دسمبر 2013ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم ریاست گجرات کے سخت گیر وزیراعلیٰ نریندر مودی کے گرد گھوم رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پہلے ہی مودی کو اگلے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں وزیراعظم کا امیدوار نامزد کر رکھا ہے۔ رائے عامہ کے جائزے یہ بتا رہے ہیں کہ بی جے پی الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ مرکزمیں قائم موجودہ بھارتی حکومت کانگریس کے ہاتھ میں ہے اور اُس کی باگ ڈور نہرو گاندھی خاندان نے سنبھال رکھی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق کانگریس کی شکست بظاہر سامنے دکھائی دے رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو اِس سوال کا سامنا ہے کہ اگر وہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں کر پاتی تو مخلوط حکومت سازی میں نریندر مودی کے نام پر اختلاف رائے کی صورت میں کیا تبادل لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ سن 2002 میں رونما ہونے والے مذہبی فسادات کا دھبہ ابھی تک نریندر مودی دھونے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے اندرونی سیاسی حلقوں میں نرم لہجے کے حامل سیاستدان شیو راج سنگھ چوہان کا نام سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں مخلوط حکومت سازی میں اگر قدامت پسند جماعت کو نریندر مودی کے نام پر مشکلات کا سامنا ہوا تو امکاناً شیو راج سنگھ چوہان کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔
رواں مہینے کے دوران ہونے والے ریاستی انتخابات میں شیو راج سنگھ چوہان نے مدھیہ پردیش میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ اِس ریاست کے اب تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔ بھارت کے ایک سیاسی دانشور گِرجا شنکر کا خیال ہے کہ شیو راج سنگھ چوہان کسی طور پر بھی نریندر مودی کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ اُن کے چیلنجر ہو سکتے ہیں لیکن حالیہ انتخابات میں بھاری کامیابی سے اُن کے وقار میں جو اضافہ ہوا ہے، اُس کی وجہ سے اُن کا نام آگے بڑھانے والے خاصے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ کئی دوسرے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی ووٹ حاصل کرنے کے تناظر میں شیو راج سنگھ اِس وقت نریندر مودی کے مقابلے میں کسی طور پر بھی کمزور سیاستدان نہیں ہیں۔
شیو راج سنگھ چوہان بنیادی طور پر کسان تھے اور کھیتی باڑی کرتے کرتے وہ اب ایک مقبول سیاستدان کا روپ دھار چکے ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ سن 1991 میں لوک سبھا کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی ریاست مدھیہ پردیش کو غربت کے چنگل سے نکال کر ایک آسودہ حال ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے زرعی پیداوار میں شاندار اضافے کے ساتھ ساتھ دوسری اقتصادی سرگرمیوں کو بھی ریاستی دائرے میں اعلیٰ خطوط پر استوار کر رکھا ہے۔ مدھیہ پریش کے صدر مقام بھوپال سے اِندور تک چار رویہ بڑی شاہراہ کو ریاست کی اقتصادی خوشحالی کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی میں کچھ اور نام بھی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اُن میں پارٹی کے سینیئر سیاستدان لال کرشن ایڈوانی سب سے نمایاں ہیں۔ اُن کے علاوہ خاتون لیڈر سُشما سوراج اور ارون جیٹلی بھی اہم خیال کیے جا رہے ہیں۔ اِس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی منظر پر ایڈوانی، سوراج اور جیٹلی کو سارے بھارت میں جانا جاتا ہے جبکہ شیو راج سنگھ ایک بالکل نیا نام خیال کیا جا رہا ہے۔