نسل پرستی اور غربت میں باہمی تعلق ہے، جرمن مطالعے کے نتائج
8 مئی 2024جرمنی میں نسل پرستی بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ متاثرہ لوگوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟ اس بارے میں برلن میں قائم جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (DeZIM) نے ''مساوات کی حدود، نسل پرستی اور غربت کا خطرہ‘‘ کے عنوان سے ایک مطالعے کے نتائج شائع کیے ہیں، جو نسل پرستی اور غربت کے خطرے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔
زیرین سالیکُوتلک اور کلارا پوڈکوک دو سماجی امور پر کام کرنے والی سائنسدانوں نے قومی امتیاز اور نسل پرستی کے مانیٹر (NaDiRa) کے ڈیٹا پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھی۔ یہ ریسرچ پراجیکٹ 2020 ء سے جرمن وفاقی پارلیمان یا بنڈسٹاگ کی طرف سے فراہم کردہ مالی اعانت کی مدد سے چل رہا ہے اور اس کا مقصد روزمرہ کے نسل پرستانہ تجربات کا ایک نمائندہ سروے تیار کرنا ہے۔
محققہ زیرین سالیکُوتلک کہتی ہیں، ''اگر آپ سرکاری اعدادوشمار یا وفاقی حکومت کی غربت اور دولت کی رپورٹس کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کا کس حد تک دارو مدار تارکین وطن کے پس منظر اور اس سوال پر ہے کہ آیا آپ کے پاس جرمن شہریت ہے؟‘‘
سالیکُوتلک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ابھی تک جو کچھ نہیں کہہ سکے وہ یہ ہے کہ جرمنی میں نسل پرستی سے متاثر ہونے والے لوگ واقعی کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
جرمنی میں روزمرہ امتیازی سلوک
محققین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں تعلیمی نظام، لیبر مارکیٹ، ہاؤسنگ مارکیٹ اور صحت کے شعبے میں امتیازی سلوک پایا جاتا ہے۔ گزشتہ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ مہاجرین یا تارکین وطن کے پس منظر کے حامل افراد کو جرمنی میں روزگار کی منڈ ی میں اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ان باشندوں کے معیار زندگی کے خط غربت سے نیچے گر جانے اور ان مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
جرمنی میں ایسے افراد جن کی آمدنی شماریاتی اوسط آمدنی کے 60 فیصد سے کم ہو انہیں غربت کے خطرات سے دوچار ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ 2023 ء میں ماہانہ اوسط آمدنی ایک ہزار تین سو دس یورو یا ایک ہزار چار سو دس ڈالر تھی۔ ایسے باشندے، جن کا پس منظر تارکین وطن کا نہیں اور جو کُل وقتی ملازمت کر رہے ہیں، کے پانچ فیصد سے ان کی ماہانہ آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کی آمدنی خط غربت سے نیچے ہے۔ تاہم جرمنی میں آباد ایسے ہی سیاہ فام، مسلم اور ایشیائی باشندوں کی شرح 20 فیصد تک بڑھی ہوئی تھی۔
تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افراد کے ساتھ امیتازی سلوک
ماہانہ آمدنی کے بارے میں کروائے گئے مذکورہ سروے میں اعلیٰ سطح کی تعلیم یا پیشہ ورانہ کامیابیوں کے حامل جواب دہندگان کے اعداد و شمار یکساں تھے تاہم نسلی امتیاز کا سامنا کرنے والے افراد کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنے کا امکان دو سے سات گنا زیادہ پایا گیا۔ 33 فیصد مسلمان مردوں کو غربت کا سب سے زیادہ خطرہ تھا۔
محققہ زیرین سالیکُوتلک نے ان اعداد و شمار کو 2013 ء سے جرمنی آنے والے تارکین وطن میں شامل مسلم مردوں میں غربت کے خطرات کی شرح سے کم قرار دیا۔
امتیازی سروے کے تقریباً 20 فیصد مسلمان جواب دہندگان کا تعلق شام اور افغانستان سے ہے، جو جنگ اور غربت سے شدید متاثر ہوئے۔ زیرین سالیکُوتلک کا مزید کہنا تھا، ''اور ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ مہاجرین کو مزدوری کی منڈی تک محدود رسائی کی وجہ سے غربت کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔‘‘ یہاں تک کہ غیر ملکی پس منظر کے حامل افراد جو جرمنی میں کافی عرصے سے مقیم ہیں یا اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں یا جرمن شہریت رکھتے ہیں ان کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
سماجی امور کی ماہر اور محققہ زیرین سالیکُوتلک نے اس سلسلے میں ایک دلچسپ تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا،''ایک جیسی درخواستوں کے دستاویزات مختلف ناموں سے بھجوائی گئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کے نام ترک ناموں سے ملتے جلتے تھے، انہیں ملازمت کے انٹرویو میں مدعو کیے جانے کا امکان بہت کم پایا گیا۔‘‘
غربت کی شرح کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟
زیرین سالیکُوتلک کا خیال ہے کہ سروے کے نتائج غربت سے نمٹنے اور پسماندہ گروہوں کے لیے مساوی مواقع کو فروغ دینے کے لیے مخصوص اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ محققین کا استدلال ہے کہ بیرون ملک حاصل کی گئی تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت کو جرمنی میں تسلیم کیا جانا چاہیے۔
اس بارے میں شائع ہونے والے مطالعے میں محققین تحریر کرتے ہیں،''اس سے مہاجرین اور دیگر تارکین وطن کے جرمن لیبر مارکیٹ میں داخلے میں تیزی آئے گی اور غیر ملکی قابلیت کے حامل ہنر مند کارکنوں کو مناسب پیشوں تک رسائی ملے گی۔‘‘
محققین کی ٹیم نے تاہم لیبر مارکیٹ کے انضمام کو تیز کرنے کے لیے مطلوبہ کورسز تک تیز تر رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاجرین میں غربت کی بلند شرح کو صرف اسی صورت میں کم کیا جا سکتا ہے، جب اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ جرمنی میں اپنی روزی کما سکیں۔
(مارسل فؤرسٹیناؤ) ک م/ ش خ