نو منتخب ایرانی صدر یورپ کے ساتھ ’بہتر تعلقات‘ کے خواہاں
13 جولائی 2024ایران کے نومنتخب صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ وہ یورپی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کی پابندیوں کے خلاف یورپ کی جانب سے خاموشی پر رنج کا اظہار بھی کیا۔
تہران ٹائمز میں گزشتہ روز شائع ہونے والے ایک مضمون میں پزشکیان نے کہا کہ سن 2015 کے معاہدے سے امریکی دستبرداری کے بعد یورپی ممالک نے تہران کو پابندیوں سے بچانے کی کوشش کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے اس مضمون میں لکھا، ''یورپی ممالک ان تمام وعدوں سے مکر گئے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ اس وعدہ خلافی کے باوجود وہ باہمی احترام اور برابری پر مبنی تعلقات کی بحالی کے خواہش مند ہیں اور یورپ کے ساتھ تعمیری بات چیت کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے 2018 میں اس جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کیے جانے کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں بحال کر دی گئی تھیں۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنا تھا۔
انہوں نے اپنے مضمون میں اس بات کا ذکر کیا اور یورپ کے حوالے سے لکھا کہ دونوں فریقین متعدد شعبوں میں باہمی تعاون سے مستفید ہو سکتے ہیں لیکن اس باہمی تعلق میں یورپی نام نہاد اخلاقی بالادستی کی سوچ کو بلائے طاق رکھا جانا چاہیے۔
یورپی یونین کی ترجمان نبیلہ مسرالی نے اس سے قبل پزشکیان کو ان کے انتخاب پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 27 رکنی بلاک یورپی یونین کی پالیسی کے مطابق نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔
پزشکیان گزشتہ ہفتے ہی قدامت پسند سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی کو شکست دے کر ایرانی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ 69 سالہ پزشکیان کا مقصد ایران کو عالمی سطح پر تنہائی سے چھٹکارا دلانا اور تمام ممالک کے ساتھ تعمیراتی روابط بحال کرنا ہے۔ وہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدے کی بحالی کے خواہاں بھی ہیں۔
سخت گیر سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں موت کے بعد چھ جولائی کو انتخابات کا انعقاد ہوا، جو عام حالات میں 2025 کے بعد ہونا تھے۔
ان حالیہ انتخابات میں پزشکیان نے 54 فیصد جبکہ ان کے مقابلے میں کھڑے جلیلی نے 44 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ان انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔
پزشکیان ایک ماہر امراض قلب ہیں اور حکومتی امور سنبھالنے کا ان کا تجربہ نہایت محدود ہے۔ وہ دو دہائی قبل وزیرِ صحت رہے تھے۔پزشکیان کو ایران میں ایک 'اصلاح پسند‘ سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ رواں ماہ تیس تاریخ کو ایرانی صدر کے طور پر حلف اٹھانے والے ہیں۔
انہوں نے اپنے اس مضمون میں امریکہ سے مخاطب ہوکر یہ بھی کہا، ''ایران نے دباؤ کا جواب نا دیا ہے نا ہی دے گا۔‘‘
دنیا کی بڑی طاقتوں نے ایران کے ساتھ سن 2015 کے جوہری معاہدے کو تہران کی جانب سے جوہری بم بنانے سے روکنے کا ایک بہترین موقعے کے طور پر دیکھا۔ تاہم ایران ہمیشہ ہی جوہری ہتھیار بنانے کی نفی کرتا رہا ہے۔ اس معاہدے میں برطانیہ، چین، فرانس اور جرمنی جیسے کئی ممالک شامل تھے۔ تاہم امریکہ کی علیحدگی کے بعد یورپی ممالک نے اس معاہدے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی لیکن تہران یورپ پر وعدہ خلافی کا الزام عائد کرتا ہے۔
اپنے اسی مضمون میں پزشکیان نے روس کو ایک "اسٹریٹیجک پارٹنر" کے طور پر بیان کیا اور کہا کہ وہ چین کے ساتھ بھی "زیادہ وسیع تعاون" کی امید کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران اپنے عرب ہمسایہ ممالک اور ترکی کے ساتھ اقتصادی تعاون مضبوط کرنے کا خواہش مند ہے تاکہ ''مشترکہ چیلنجوں‘‘ کا سامنا بہتر طور پر کیا جا سکے۔
ر ب/ ا ا (اے ایف پی)