نوجوان موسیقار، افغانستان کا نیا چہرہ دکھانے کے خواہاں
5 فروری 2013ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں حالات تبدیل ہو رہے ہیں، 48 نوجوانوں کا ایک گروپ امریکا کا دورہ کر رہا ہے۔ ان نوجوان موسیقاروں کا تعلق ملک کے اولین میوزک انسٹیٹیوٹ سے ہے۔ امریکا میں یہ گروپ اپنے مقامی روایتی میوزک اور مغربی کلاسیکل میوزک کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کرے گا۔
میلاد یوسفی اس وقت چھوٹا بچہ ہی تھا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں میں موسیقی پر پابندی بھی شامل تھی۔ تاہم اب سے محض پانچ برس قبل یوسفی نے دوبارہ پیانو بجانا شروع کیا اور حال ہی میں جرمنی میں ہونے والے ایک مقابلہ موسیقی میں اس نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
18 سالہ یوسفی نے رواں انگریزی زبان میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’موسیقی وہ واحد چیز ہے جس کے ذریعے ہم امن لا سکتے ہیں۔ اگر میڈیا محض جنگ کے مناظر ہی پیش کرتا ہے، تو افغانستان کے بارے میں لوگوں کا تصور محض یہی کچھ ہوگا۔ اگر ہم موسیقی پر توجہ دیں تو لوگوں کا تصور اس ملک کے بارے میں تبدیل ہو جائے گا۔‘‘
افغان نیشنل میوزک انسٹیٹیوٹ کا آغاز 2010ء میں ہوا تھا۔ اس وقت اس ادارے میں 144 طلبہ کو موسیقی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ ان طلبہ کو بذریعہ آڈیشن اس انسٹیٹیوٹ میں جگہ دی گئی تھی۔ ان طلبہ کو صرف موسیقی ہی نہیں سکھائی جاتی بلکہ یہ دیگر کورسز بھی پڑھتے ہیں، جن میں قرآن کی تعلیم سے کمپیوٹر تک کی تعلیم شامل ہے۔
افغانستان کے یہ نوجوان موسیقار جمعرات سات فروری کو واشنگٹن کے کینیڈی سینٹر میں اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ اس کے بعد 12 فروری کو یہ نیویارک کے کارنیگی ہال Carnegie Hall میں بھی پرفارم کریں گے۔
افغان نیشنل میوزک انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر احمد سرمست کے مطابق، ’’اپنے فن کے اظہار کے ذریعے ہم عالمی برادری کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ کا حصہ ہیں۔ ہم آپ کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ہم بھی وہی زبان بول سکتے ہیں، موسیقی کی زبان۔‘‘
افغان نوجوان موسیقاروں کے اس گروپ نے امریکا میں اپنی پرفارمنس کا آغاز پیر چار فروری کو واشنگٹن میں دفتر خارجہ میں کیا تھا، جس میں انہوں نے رُباب سمیت دیگر افغان آلات موسیقی کے ساتھ ایک دعائیہ نظم پیش کی۔ حیران کن طور پر امریکا کے نئے وزیر خارجہ جان کیری بھی اپنے کام کے آغاز کے پہلے دن کے باوجود ان نوجوانوں کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے ہال میں موجود تھے۔
اس موقع پر جان کیری نے موسیقی کو ’امن، خوابوں اور ممکنات کے لیے ایک بین الاقوامی زبان‘ قرار دیتے ہوئے ان نوجوانوں سے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں پوری امید ہے کہ ان کے ملک میں امن و استحکام آئے گا۔
گروپ میں شریک 20 سالہ نوجوان شہیر کابلی نے اس موقع پر امید ظاہر کی کہ ان کا دورہ ’’یہ ثابت کرے گا کہ افغانستان میں موسیقی موجود ہے‘‘۔ شہیر کے مطابق، ’’اگر 2014ء میں طالبان واپس نہ آئے، تو میرے خیال میں موسیقی بہت زیادہ ترقی کرے گی۔‘‘ تاہم اس نوجوان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان واپس لوٹ آئے جیسا کہ وہ 10 برس قبل آئے تھے تو۔۔۔ اس سے آگے اس نوجوان کی آواز رندھ گئی اور وہ آگے کچھ نہ کہہ سکا۔
aba/mm (AFP)