نوجوان کی ہلاکت، پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک اور دھچکہ
11 جون 2011ایبٹ آباد میں پاکستانی ملٹری اکیڈمی سے محض ایک میل سے بھی کم فاصلے پر دنیا کے سب سے مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن کی برسوں تک موجودگی، امریکی فوجیوں کے ہاتھوں بن لادن کی ہلاکت، کراچی میں بحریہ کے ایک اہم ترین اڈے پر دہشت گردوں کے حملے اور اس حملے کے حوالے سے رپورٹ لکھنے والے صحافی سید سلیم شہزاد کی موت کی وجہ سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پہلے ہی دفاعی پوزیشن پر دکھائی رے رہی تھیں۔ ایسی صورتحال میں یہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں زندگی کے لیے بھیک مانگتے ہوئے نوجوان لڑکے کو گولیاں مارنے اور زخمی حالت میں اسے تڑپتے چھوڑ دینے والے رینجرز اہلکاروں نے پاکستانی عوام کے غصے میں مزید اضافہ کیا ہے۔
پاکستان میں تقریبا تمام چھوٹے بڑے ٹیلی وژن چینلز پر بار بار نشر کی جانے والی اس ویڈیو کے بعد اس بحث نے ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر لی ہے کہ ملکی سکیورٹی ادارے آخر جمہوری حکومت کی موجودگی میں ماورائے عدالت قتل کے مرتکب کیسے ہو سکتے ہیں اور کیا پاکستانی حکومت فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کو اپنے ماتحت رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے؟
اس ویڈیو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے خودمختار انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے کہا کہ اس سے ملکی سکیورٹی فورسز کی ’سفاکی‘ ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے بقول یہی سفاکی بالآخر معاشرے میں تشدد کو ہوا دیتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستانی میڈیا، جو اس سے قبل فوج اور سکیورٹی اداروں پر براہ راست تنقید سے گریز کرتا دکھائی دیتا تھا، اب کھل کر اس موضوع پر بات کر رہا ہے۔
میڈیا پر رپورٹوں کے بعد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سندھ پولیس کے سربراہ اور پاکستانی رینجرز سندھ کے ڈائریکٹر جنرل کو تین روز میں ان کے عہدوں سے ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ افسران اگر تین روز میں عہدوں سے نہ ہٹائے گئے، تو باقاعدہ نوٹیفیکیشن کے اجراء تک ان کی تنخواہیں اور مراعات روک لی جائیں۔
نوجوان کی ہلاکت کی خبریں اور تصاویر پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی شائع کیں، جن کی سرخیوں میں بھی سکیورٹی فورسز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف