نیپال کا زلزلہ ’سیاسی اتحاد کا سبب‘
9 جون 2015ہمالیہ کی اس بادشاہت میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کا باعث بننے والے حالیہ زلزلے نے اس ملک کے سیاستدانوں کی صفوں میں اتحاد قائم کر دیا ہے۔ اس ملک میں ایک عرصے سے نئے آئین کا تنازعہ جاری تھا۔ خاص طور سے ملک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم کرنے پر عدم اتفاق پایا جاتا تھا۔ پیر کی شب نیپال کی سیاسی جماعتیں ملک کے نئے آئین کے مسودے پر متفق ہو گئیں۔ اس تاریخی معاہدے کے تحت نیپال مستقبل میں آٹھ صوبوں پر مشتمل ہو گا۔
واضح رہے کہ ایک دہائی پر محیط ماؤ نواز باغیوں کی بپا کی ہوئی شورش کے دوران نیپالی سیاستدان اس سے قبل ملک کے نئے آئین کی منظوری کے لیے طے شدہ مسلسل کئی ڈیڈ لائنز عبور کر چُکے تھے۔ 2006 ء میں نیپال کی خانہ جنگی، اس چھوٹی سی خوبصورت ریاست میں 16 ہزار سے زیادہ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنی تھی۔ ماؤ باغی اور حکومتی فورسز کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں محفوظ مقامات کی تلاش میں سرکردہ ہزاروں نیپالی باشندے اپنے گھر بار چھوڑنے پر بھی مجبور ہوئے تھے۔ ان سب کے نتیجے میں نیپال غربت اور پس ماندگی کا شکار ہو گیا تھا۔
گزشتہ روز یعنی پیر کو نئے قانونی مسودے پر سیاسی رہنماؤں کے مابین اتفاق کے بارے میں وزیر اطلاعات منندرا ریجال کا کہنا تھا، ’’ 25 اپریل کو آنے والے زلزلے میں آٹھ ہزار سات سو سے زائد باشندے لقمہ اجل بن گئے اور قریب نصف ملین مکانات تباہ ہو گئے۔ ملک کی اس سنگین بحرانی صورتحال کے پیش نظر سیاستدانوں نے آپس کے دیرینہ اختلافات دور کر کہ نئے آئین پر متفق ہونے کا اعلان کر دیا۔‘‘
ریجال نے اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں میں اس آئین کو متفقہ طور پر منظور کرنے کی حقیقی خواہش پائی جاتی ہے۔
ماؤ نواز باغی ایک طویل عرصے سے سیاسی طاقت کو مرکز سے ہٹاتے ہوئے اس کی صوبوں تک منتقلی پر زور دے رہے تھے۔ اب نئے آئین پر اتفاق سے نیپال میں فیڈرل اسٹریکچر کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ تاہم اس نئے معاہدے میں ایک متنازعہ شق کا معاملہ اب بھی حل طلب ہے ۔ وہ ہے صوبائی سرحدی حدود کے تعین کا۔ اس بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مستقبل میں بھی نزع کا باعث بنا رہے گا۔
ایک نیپالی صحافی اور مصنف پراشنت جھا کے بقول، ’’یہ معاہدہ نامکمل ہے کیونکہ اس میں اس اہم سوال پر سرے سے بات ہی نہیں کی گئی۔ سیاسی جماعتیں داخلی سرحدوں کے معاملے پر کسی فیصلے پر پہنچنے کی اپنی ذمہ داری سے پوری طرح دستبردار ہو گئیں ہیں۔‘‘
جھا کے بقول، ’’نیپال کا نیا آئین پہلے روز سے ہی گہری تقسیم اور تنازعہ پر مشتمل ہوگا۔‘‘ ایک سینیئر ماؤ نواز لیڈر نارائن کاجی شرستھا نے نئے آئین پر اتفاق کے بارے میں کہا، ’’ ہم نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ہے۔ اس معاہدے میں شامل ہر چیز ہمارے مطالبات سے میل نہیں کھاتی۔‘‘
نیپال کی اپوزیشن ماؤسٹ پارٹی ہمیشہ سے ایک ایسے نئے صوبے کی تشکیل پر زوز دیتی رہی ہے جو تاریخی طور پر الگ تھلگ کر دی گئی برادریوں کے حق میں ہو۔ تاہم دیگر سیاسی جماعتیں اسے قومی اتحاد کے لیے ایک خطرہ اور ملک میں سیاسی تقسیم کو مزید فروغ دینے کے مترادف گردانتے ہوئے اس کی مخالفت کرتی ہیں۔