نیپال کا سیاسی جمود، مسائل بڑھتے ہوئے
12 نومبر 2012ایک عشرے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد 2006ء میں ماؤ پرستوں نے نیپال کے سیاسی دھارے میں مرکزی کردار حاصل کر لیا تھا۔ بغاوت کے خاتمے کے بعد ملک کا اقتدار سنبھالنے والی ماؤ نواز قیادت سے اگرچہ بہت سی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں تاہم اب معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ملک کو مزید بحرانوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔
نیپالی وزیر اعظم بابو رام بھٹارائے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے علاوہ انفرا سٹرکچر میں بھی بہتری کے خواہشمند ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک اقتصادی ترقی کی طرف گامزن ہونا چاہیے۔ تاہم یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نیپالی ماؤ پرست رہنماؤں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد نہ تو بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا اور نہ ہی وہ غیر مؤثر حکومتی مشینری کو کار آمد بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
گزشتہ مئی میں ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد بھی تمام سیاسی جماعتیں ملکی آئین کا مسودہ تیار کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم بھٹارائے کے سیاسی مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ملک میں نہ تو کوئی حکومت ہے اور نہ کوئی پارلیمان۔ اپوزیشن کے بقول آئندہ انتخابات کے لیے کسی وقت کا تعین بھی نہیں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سےسیاسی جمود اور تعطل کا خاتمہ ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
دوسری طرف وزیر اعظم بھٹارائے پرانی پارلیمانی پارٹیوں پر الزام دھرتے ہیں کہ اس سیاسی تعطل کی وجہ دراصل وہ ہیں۔ اس تناظر میں انتہائی اہم امر یہ ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ کو حتمی شکل دینے میں ناکامی کی وجہ سے آئندہ جمعرات سے عبوری حکومت کے متعلقہ حکام وزارت خزانہ سے فنڈز کی وصولی کا حق کھو دیں گے، جس کے نتیجے میں حکومت نصف ملین سرکاری ملازمین، فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو تنخواہ دینے کے قابل نہیں رہے گی۔
وزارت خزانہ سے وابستہ اعلیٰ اہلکار شانتا راج سوبیدی نے روئٹرز کو بتایا، ’’حتیٰ کہ ہم ہسپتالوں میں انتہائی اہم ادویات فراہم نہیں کر سکیں گے، بزرگ افراد کو پینشن نہیں دیں سکیں گے اور جیلوں میں قیدیوں کے لیے خوراک کا بندوبست بھی نہیں کر سکیں گے۔‘‘
بدعنوان اور جذبے سے عاری
نیپالی ٹائمز نامی اخبار کے ایڈیٹر کوندا ڈکشٹ کے بقول، ’’یہاں کوئی پارلیمان نہیں ہے، کوئی بجٹ نہیں ہے اور کوئی آئین نہیں ہے لیکن پھر بھی ملک چل رہا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں اتنی بدعنوان اور توانائی یا جذبے سے عاری ہیں کہ حکومت کا نہ ہونا ان کے مفاد میں ہے۔‘‘
تاہم دوسری طرف وزیر اعظم بھٹارائے کے حریف سیاستدان صبر کا پیمانہ کھوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم جھالا ناتھ کھنال کہتے ہیں کہ جب تک بھٹا رائے مستعفی نہیں ہوتے اور ایک متحدہ حکومت کا قیام عمل میں نہیں لاتے، وہ تب تک ملک میں مالی بجٹ کی تیاری کی راہ میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ انہوں نے خبردار کر رکھا ہے کہ دوسری صورت میں وہ بھٹارائے کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے عوامی بغاوت کی کال بھی دے سکتے ہیں۔
گزشتہ جمعے کو کھٹمنڈو میں ہزاروں مظاہرین نے حکومت مخالف ایک ریلی میں شرکت کی تھی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں جاری سیاسی جمود کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور قومی اتفاق رائے کی ایک حکومت قائم کی جائے۔
اگرچہ بھٹارائے پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے تاہم وہ کہتے ہیں، ’’قانونی طور پر صرف میں ہی وزیر اعظم ہوں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن بجٹ کی تیاری میں رکاوٹ ڈالے گی تو وہ صدارتی حکم کے تحت اسے منظور کروا لیں گے۔ تاہم ایسی افواہیں بھی ہیں کہ صدر رام باران یادیِو ملکی سیاسی بحران کے خاتمے لیے ایگزیکٹو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، خود ہی اقتدار سنبھال سکتے ہیں۔
(ab / mm (AFP