نیپال کے پارلیمانی انتخابات مظاہروں کے سائے میں
19 نومبر 2013نیپال میں جمہوریت نوازی اور بادشاہت کے خلاف دس برسوں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام کے بعد آج منگل کے روز دوسرے عام انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ان انتخابات کو نیپال کے اندرونی سیاسی و سماجی استحکام کے لیے بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق انتخابات کے بعد ایک توانا حکومت ہی معاشی مشکلات میں کمی لانے کے لیے دیرپا فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ نیپال میں سن 2006 میں ماؤ نواز مسلح باغیوں نے جمہوریت کی راہ ہموار ہونے پر ہتھیار پھینک کر مرکزی سیاسی دھارے میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
عام انتخابات کے انعقاد سے قبل حکومتی اہلکاروں اور عوام کو امن و سلامتی کے حوالے سے کئی قسم کے حدشات لاحق ہیں۔ آج منگل کے روز ہونے والے انتخابات کے حوالے سے نیپالی چیف الیکشن کمیشنر نیل کانتا اُپرتی (Neel Kantha Uprety) کا کہنا ہے کہ حالیہ پرتشدد فسادات کے باوجود انتخابات آزادانہ، شفاف اور بغیر کسی خوف کی فضا میں مکمل کیے جائیں گے۔ ملکی سکیورٹی کی مناسبت سے چیف الیکشن کمیشنر نے واضح کیا کہ ایسے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جن کے باعث بیلٹ بکسوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ووٹرز کو بھی ووٹ ڈالتے وقت کسی سیاسی خوف کا سامنا نہیں ہو گا۔
نیپال میں سیاسی جماعتوں کی شمولیت والے پہلے پارلیمانی انتخابات سن 2008 میں ہوئے تھے۔ اُس وقت رجسٹرڈ ووٹرز نے بڑھ چڑھ کر پولنگ کے عمل میں حصہ لیا تھا۔ اُن انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی دستور ساز اسمبلی سن 2012 میں بغیر کسی دستوری پیش رفت کے زوال کا شکار ہو کر رہ گئی تھی۔ پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی اور دوسری دائیں بازو کی جماعتوں کے مفادات اور پسند و ناپسند، جمہوری و پارلیمانی عمل کی راہ میں حائل رہے۔ مقررہ وقت کے اندر پہلی دستور ساز اسمبلی ملک کو نیا آئین دینے میں ناکام رہی۔
گزشتہ ایام میں نیپال میں ایک مرتبہ پھر پرتشدد واقعات کو دیکھا گیا۔ مشتعل گروپوں نے نجی و حکومتی املاک کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ موٹر گاڑیوں کو آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کئی مقامات پر بارودی مواد کو استعمال کر کے ٹریفک کے نظام کو بھی درہم برہم کیا گیا۔ ان فسادات کے دوران پولیس نے کم از کم 310 افراد کو حراست میں لیا۔ بائیں بازو کے ایک رہنما دیو گورنگ کا کہنا ہے کہ انہیں ووٹرز کے بھاری ٹرن آؤٹ کی امید نہیں ہے اور حالیہ فسادات سے وہ خوفزدہ ہیں۔ گورنگ کے خیال میں عوام الیکشن سے کسی فائدے کی توقع نہیں کر رہے کیونکہ پہلی ملکی اسمبلی دستور دینے سے قاصر رہی ہے۔ دوسری جانب نیپالی کانگریس کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ووٹرز بھاری تعداد میں باہر نکل کر ان کی جماعت کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔
آج کے انتخابات میں چھوٹی بڑی 100 سیاسی پارٹیاں انتخابی عمل میں شریک ہیں۔ ان میں متحدہ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی، نیپالی کانگریس اور ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی خاص طور پر بڑی اور نمایاں جماعتیں ہیں۔ انہی تین سیاسی جماعتوں کے زیادہ تر امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ کی کل نشستیں 601 ہیں۔ انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے پچاس ہزار فوجی اور ایک لاکھ 40 ہزار پولیس اہلکار آج پولنگ اسٹیشنوں اور حساس مقامات پر ڈیوٹیاں سرانجام دیں گے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر اپنے ادارے کارٹر سینٹر کے 50 اہلکاروں کے ساتھ نیپال کے الیکشن کا جائزہ لینے نیپالی انتخابات کو مانیٹر کریں گے۔