نیپال: گزشتہ برس کے زلزلوں میں خواتین سب سے زیادہ متاثر
10 اگست 2016ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے باعث نو لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہوئے تھے ان میں سے ایک چوتھائی گھروں کی سربراہ خواتین تھیں۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق نیپال کا سن 2015 میں منظور کیا گیا آئین خواتین کے خلاف عدم مساوات کو روکتا ہے اور جائیداد کی ملکیت کا حق بھی فراہم کرتا ہے۔ تاہم سماجی رویے ابھی تک خواتین کو یہ حقوق دینے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم ’ویمن فار ہیومن رائٹس‘ کی بانی للی تھاپا نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ نیپال میں خواتین اور مردوں کے درمیان عدم مساوات کے باعث زلزلوں جیسی قدرتی آفات میں سب سے زیادہ متاثرخواتین ہوتی ہیں۔‘‘
للی کے مطابق خواتین اپنے مسائل مناسب طریقے سے متعلقہ حکام تک نہیں پہنچا پائی تھیں اسی باعث انہیں کم سے کم امداد ملی اور وہ مختلف خطرات کا شکار ہو گئیں جن میں ہراساں اور یہاں تک کے اسمگل کیے جانے جیسے خطرات بھی شامل ہیں۔
غیر سرکاری تنظمیوں کے اندازوں کے مطابق نیپال میں پانچ لاکھ خواتین ایسی ہیں جو مردوں کے بغیر رہ رہی ہیں ان میں طلاق یافتہ ہیں، بیوہ یا 35 سال کی عمر سے زائد غیر شادی شدہ خواتین بھی شامل ہیں۔
للی کے مطابق نیپال میں 37 فیصد خواتین کی 18 برس کی عمر سے قبل شادی کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نیپال کے مردوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہے جس کی وجہ سے نیپال میں ایسے گھرانوں کی شرح 26 فیصد ہے جن کی سربراہ خواتین ہیں۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق سن 2011ء میں صرف 20 فیصد خواتین ایسی تھیں جو کسی زمین کی ملکیت رکھتی تھیں۔
گزشتہ برس اپریل اور مئی میں آنے والے زلزلوں میں نو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ WHR اور Oxfam کی طرف سے زلزلے سے متاثرہ جن 495 سے سروے کیا گیا ان میں سے قریب ایک چوتھائی سے ان کی زمینوں کی ملکیت کے کاغذات گم گئے تھے۔ للی کا کہنا ہے کہ ایسی بہت سی خواتین ہیں جن کے پاس نہ تو شناختی کارڈ ہے اور نہ ہی شادی یا پیدائش کے سرٹیفیکیٹ۔ للی کہتی ہیں کہ ان کے ادارے کی جانب سے کیے جانے والے سروے سے پتا چلا تھا کہ وہ عورتیں جو زلزلوں کے بعد بیوہ ہو گئی تھیں انہیں علاقائی روایت کے باعث ایک برس تک گھر سے نکلنے کی اجازت نہ تھی جس کی وجہ سے وہ نہ تو امداد حاصل کر پائیں اور نہ ہی نئے کاغذات بنوا سکیں۔
'ویمن فار ہیومن رائٹس‘ قدرتی آفات کے بعد فراہم کی جانے والی امداد اور بحالی کے پروگراموں میں بے سہارا خواتین کو خصوصی توجہ دینے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ للی کے مطابق ’سنگل‘ خواتین کو ان کے اثاثوں کی ملکیت فراہم کرنے سے وہ قدرتی آفات کی صورت میں غیر ضروری تکلیفوں سے بچ سکتی ہیں۔