وزیر اعظم مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا
5 اگست 2020وزیر اعظم مودی نے 'شُبھ مہورت‘ میں دوپہر 12 بجکر 44 منٹ پر ہندو دھرم کے مقدس منتروں کے جاپ کے دوران رام مندر کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ بنیاد میں رکھی۔ اس دوران وہاں موجود لوگوں نے تالیا ں بجائیں اور 'ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے لگائے۔ خصوصی طور پر تیار 40 کلوچاندی کی اینٹیں بھی بنیاد میں رکھی گئیں۔
اس موقع پر 175 منتخب افراد موجود تھے۔ جن میں ہندووں کے مختلف پنتھ (مسلک) کے بڑے پنڈتوں کے علاوہ ہندوقوم پرست جماعت اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت، اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ، گورنر آنندی بین، یوگا گرو بابا رام دیو اور آرٹ آف لیونگ کے بانی روی روی شنکر شامل تھے۔ مودی نے سربسجود ہوکر شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
مودی کے ذریعہ سنگ بنیاد رکھے جانے پر مختلف حلقوں اور بالخصوص سول سوسائٹی نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عہدے پر فائز ایک شخص کوکسی مخصوص مذہب کی تقریب میں اس طرح حصہ لینا درست نہیں ہے اور وزیر اعظم مودی نے عہدے کے حلف لیتے وقت ملکی آئین اور قانون کا احترام کرنے کا جو عہد کیا تھا، ان کا یہ قدم،اس کے برخلاف ہے۔
قبل ازیں وزیر اعظم مودی نے رام مندر احاطے میں پہنچ کر ایک پودا لگایا۔ اس کے بعد بھومی پوجن(زمین کی پوجا) کی تقریب میں حصہ لیا۔ اس موقع پر آر ایس ایس کے موہن بھاگوت بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔
اجودھیا پہنچنے کے بعد مودی نے سب سے پہلے ہنومان گڑھی مندر میں پوجا کیا۔ ہندو عقائد کے مطابق بھگوان رام کے نام پر کوئی کام شروع کرنے سے پہلے ہنومان جی کا آشیرواد لینا ضروری ہوتاہے۔ ہندو اساطیر کے مطابق راون کے خلاف لنکا پر چڑھائی کے دوران ہندمان جی کی قیادت میں بندروں نے رام کی مدد کی تھی۔
خیال رہے کہ بھارت میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے تنازعہ نے ملک کی سیاست یکسر تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کا سیکولر کردار ختم ہوتا جارہا ہے اور بھارت ایک ہندو راشٹر کی جانب گامزن ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ جسے اس نے پورا کردیا ہے۔ اب لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنے ایک اور انتخابی وعدے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے پوری شدت سے کوشش شروع کردے گی۔ بھار ت میں مسلمانوں کے بعض معاملات ان کے شرعی قوانین کے تحت حل کیے جاتے ہیں جسے مسلم پرسنل لا کہا جاتا ہے لیکن بی جے پی اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
دریں اثنا بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کل بھی مسجد تھی، آج بھی مسجد ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی مسجد رہے گی۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے،پوجا پاٹ شروع کر دینے سے یا ایک طویل عرصے تک نماز پر روک لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی۔ مولانا رحمانی کا مزید کہنا تھا ”رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ہندوتوا عناصر کی پوری تحریک ظلم، جبر، دھونس، دھاندلی، کذب اور افتراء پر مبنی تحریک تھی۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔"
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے ”بابری مسجد تھی، ہے اور رہے گی۔ انشاء اللہ۔" اس کے ساتھ ہی انھوں نے بابری مسجد اور بابری مسجد کے انہدام کی ایک ایک تصویر بھی شیئر کی ہے۔