وفاق اور خیبر پختونخوا کے مابین مسلسل تناؤ، عوام مشکل میں
11 ستمبر 2024پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین وسائل کی تقسیم پر اختلافات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ اکثر صوبائی حکومتیں وسائل کی عدم فراہمی کے حوالے سے وفاقی حکومت سے شکوے شکایات کرتی رہتی ہیں اور انہیں معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ تاہم کبھی کبھار یہ صورتحال باقاعدہ طور پر کشیدہ اور تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے، جب وفاق اور صوبوں میں ایک دوسرے کی حریف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوں۔
ماضی میں ان اختلافات کو قومی سلامتی اور یکجہتی کے نام پر اکثر افہام وتفہیم سے حل کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس وقت اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت اور صوبےخیبر پختونخوا (کے پی) میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے مابین جاری کشیدگی کے خاتمے کے کوئی فوری آثار نظر نہیں آتے۔
صوبائی حکومت سراپا احتجاج
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی کے پی حکومت صوبے کی مشکلات کے لیے وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مسلسل اس کے خلاف احتجاج کرتی آئی ہے۔ اس احتجاج کے نتیجے میں صوبے کی معاشی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی پہلے دن سے ہی وفاق کے ذمہ واجب الادا بقایہ جات اور صوبے میں ضم کیے گئے سابقہ قبائلی علاقوں کے لیے مختص بجٹ کی عدم فراہمی پر وفاقی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق وفاق نہ تو اپنے ذمہ واجب الادا بقایہ جات اور نہ ہی صوبے کے لیے مختص فنڈز جاری کر رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق اس صورتحال کی وجہ سے صوبے میں نہ صرف بڑے ترقیاتی منصوبوں پرکام رک چکا ہے بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہو رہی ہے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے ہی صوبائی حکومت کے مطابق وہ صحت اور تعلیم سمیت کئی اہم شعبوں میں منصوبوں پر کام شروع ہی نہیں کر سکی۔
پشاور حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے پی کی اقتصادی مشکلات کا سبب پشاور حکومت کی بدنظمی اور بری حکمرانی کو قرار دیتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ خود صوبائی حکومت میں شامل بعض وزراء نے بھی اپنی ہی حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے ہیں۔ صحت عامہ کی بات کی جائے تو صحت انصاف کارڈ کے ذریعے مفت علاج حال ہی میں مطلوبہ رقوم کی عدم دستیابی کے باعث بند کرنا پڑا۔
اسی طرح دوسرا بڑا منصوبہ سفری سہولیات کا تھا، وہ بھی مطلوبہ فنڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ تعلیمی میدان میں صوبے میں موجود دو درجن سے زیادہ جامعات بھی مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں اور اس وجہ سے اساتذہ اور انتظامی عملہ بھی سراپا احتجاج ہیں۔ اسی طرح بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کے پاس بھی فنڈز نہیں ہیں اور ناظمین احتجاج پر مجبور ہیں۔
امن و امان کی صورتحال
صوبائی حکومت نے صوبے میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے نمٹنے کے لیے پولیس کو جدید ساز و سامان کی فراہمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی استعداد کار بڑھانے کے وعدے بھی کیے تھے، جن پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ صوبے کے جنوب میں واقع لکی مروت کے حساس ضلع میں تو حاضر سروس پولیس اہلکار بھی پرامن لیکن حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ان پولیس اہلکاروں کا مطالبہ ہے کہ انہیں جدید سہولیات کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی فراہم کیا جائے اور دیگر ریاستی اداروں کی پولیس کے معاملات میں مداخلت بھی بند کی جائے۔ پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین اور عام شہری بھی بنیادی سہولیات جیسے بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف بھی آئے روزسڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
سیاسی افہام وتفہیم ناگزیر
خیبر پختونخوا کے سابق وزیر عنایت اللہ خان کا کہنا ہے کہ اس صوبے کے مالی امورکا نوے فیصد دار و مدار وفاق سے ملنے والی رقم پر ہوتا ہے۔ ان کے بقول جب وفاق کے ساتھ تعلقات درست نہ ہوں، توصوبے کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عنایت اللہ خان کا کہنا تھا، ''صوبوں کا وفاق کے ساتھ ورکنگ ریلیشن ازحد ضروری ہے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ، لیکن اپنے لیے وسائل کے حصول کی خاطر صوبائی حکومت کو وفاق کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ نہیں روکنا چاہیے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور حکومت نے کئی اہم منصوبے منسوخ یا معطل کر دیے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بھی وسائل کی کمی ہی رہی۔ اس کے علاوہ متعدد جاری منصوبوں پر بھی کام بند کر دیا گیا ہے۔ عنایت اللہ خان کا کہنا تھا، '' ماضی میں سیاسی اختلاف کے باوجود کے پی اور وفاقی حکومت کے مابین ورکنگ ریلیشن بہرحال قائم رکھا گیا تھا، اور اسی وجہ سے ہماری حکومت نے بات چیت کے ذریعے صوبے کے 100ارب روپے کے بقایاجات میں سے 70 ارب روپے حاصل کر بھی لیے تھے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر وفاق اور کسی صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومتیں ہوں، تب بھی اس صوبے کو سو فیصد مالی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ اس میں سے دس بیس فیصد کم وسائل ہی مہیا کیے جاتے ہیں۔ یہ کمی ضرور ہوتی ہے اور معمول کی بات ہے۔‘‘
اس وقت وفاق میں حکمران اتحاد کا حصہ لیکن خیبر پختونخوا میں اپوزیشن میں شامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن اسمبلی نیلوفر بابر بھی سیاسی افہام وتفہیم کے اسی نقطہ نظر سے اتفاق کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیوسے بات کرتے ہوئے کہا، ''اگر صوبہ اور وفاق ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، تو نقصان عوام کا ہی ہو تا ہے، اور عوام تو پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘
نیلوفر بابر کا کہنا تھا، ''بجلی کے بل آنے پر عام شہریوں کے گھروں میں ماتم کی سی صورتحال ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی خاطر آپس میں مل بیٹھ کربات کریں۔ یوں سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''یہ ملک رہے گا تو سیاست دان سیاست بھی کریں گے۔ سب کو مل کر اس ملک کے مسائل کے حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولنے سے عوام کا نقصان ہو گا۔ اور یہ ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ صوبے کے عوام میں کس قدر بے چینی اور ناراضگی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے۔‘‘
سابقہ قبائلی اضلاع کی مالی مشکلات کے حل کے لیے وفاق سے رابطہ
کے پی حکومت نے اپنی مالی مشکلات کے حوالے سے وفاق سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی ذریعے نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بتایا کہ پشاور حکومت نے باقاعدہ دستاویزات تیار کر لی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں ضم کیے گئے سابقہ قبائلی اضلاع کے تمام مسائل حل کرنے کے لیے دس سالہ خصوصی گرانٹ قائم کی جائے، تاکہ ان اضلاع کو درپیش شدید مالی مشکلات کا ازالہ کیا جا سکے۔
اس حکومتی ذریعے کے بقول اس مجوزہ گرانٹ کو ''پاکستان بلڈنگ گرانٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سابقہ قبائلی اضلاع کو شامل کرتے ہوئے ساتویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کو از سر نو تشکیل دیا جائے۔